ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
لئے حضرت شیخ الحدیث مولانا عبدالحق نوراللہ مرقدہ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا اور اِن کے داخلے کی کاروائی کے بعد حضرت نوراللہ مرقدہ نے میری جانب توجہ فرمائی اور مجھے فرمایا کہ آپ بھی یہاں پر دارالعلوم میں داخلہ لے لیں۔میں نے گزارش کی کہ کچھ درجات کی کتابیں پڑھ چکا ہوں اور کچھ کتابیں درمیان میں رہ گئی ہیں۔ لیکن حضرت نے فرمایا کہ تم بھی داخلہ لے لو ‘پھر بعد میں یہ کتابیں بھی پڑھ لو گے۔ یوں ایک مہمان بھی دارالعلوم کا طالب علم بن گیا، لیکن چونکہ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق ؒ کی قلندرانہ نگاہوں نے اِس گوہر نایاب اور علم و تقویٰ کے چھپے ہوئے چشمہ ء فیض وہدایت کو بھانپ لیا تھا ‘ اسی لئے ایک مہتمم محدثِ کبیر ایک سادہ اور نحیف طالب علم سے دارالعلوم میں داخلے کی تمنا اوراصرار کررہے تھے۔ اِس سے اندازہ کریں کہ ابتداء سے حضرت مولانا محمد رحیم اللہ باچا صاحب علم و معرفت کی کن کن رفعتوں پر فائز تھے۔ ولی را ولی می شناسد قدر گل بلبل شناسد دارالعلوم حقانیہ کی ستاسٹھ سالہ تاریخ میں حضرت مولانا محمد رحیم اللہ باچا صاحب واحد تنہا فارغ التحصیل طالبعلم تھے جو باوجود صوبہ خیبر پختونخوا کی بہت بڑی قدآور روحانی شخصیت اورایک بہت بڑے تعلیمی ادارے کے مہتمم و سرپرست ہونے کے باوجود برسہا برس ،وسیع و عریض مادر علمی د ارالعلوم حقانیہ میں بغیر جوتوں کے عقیدت و محبت کے باعث ننگے پائوں پھرتے رہتے اور فرماتے مجھے یہ گوارا نہیں کہ اپنے مادر علمی اور اپنے شیخ مولانا عبدالحق ؒ کے مرکز میں جوتوں سمیت اَکڑ کر چلوں۔حضرت باچا صاحب برسہابرس اپنے علاقہ اضا خیل میں اپنے علمی اور روحانی فیض کا سلسلہ چلاتے رہے پھر جب علاقہ کی مسجد تنگ پڑ گئی تو آپ نے توکل علی اللہ جامعہ اسلامیہ کی بنیاد حضرت مولانا عبدالحق ؒ کے ہاتھوں رکھوائی۔ گائوں کی سڑک کے متصل زمین پر آلتی پالتی مار کر مدرسے کیلئے خود چندہ جمع کرتے۔ سارا دن گاڑیوں کی دُھول اوردھوپ کی شدت جھیل کر مدرسہ ومسجد کی تعمیر کیلئے اتنی زیادہ زحمت برداشت کرتے لیکن اللہ تعالیٰ نے جب ان کی فنائیت ‘ تواضع اور اخلاص اور مدرسہ ومسجد کیلئے انکے دیوانہ وار جذبے کی بھرپور قدر کرتے ہوئے آناً فاناً مخلوق اور اہل خیر کے قلوب آپکے جامعہ کی تعمیر و ترقی کیلئے مائل کرادئیے اورپھر دیکھتے ہی دیکھتے ایک عظیم الشان وسیع و عریض بلند وبالا ہاسٹلوں ‘درسگاہوں سے مزین جامعہ اسلامیہ ہمیں نظر آیا اور ساتھ ہی صوبہ خیبرپختونخوا کا سب سے بڑا بنات کا مدرسہ بھی دیکھتے ہی دیکھتے بن گیا۔ یہ حضرت کی واضح کرامت تھی ۔ آج یہ جامعہ رُشد و ہدایت کا ایک بڑا مرکز بن گیا ہے،حضرت باچا صاحبؒ جیسے بڑی صوفی باصفا ‘ شریعت وطریقت کے مجمع البحرین روحانی شخصیت ہمارے خاندان اور خصوصاً مجھ جیسے ناکارہ و برادرم مولانا حامد الحق کیلئے پیرومرشد سے بڑھ کر تھے۔ ہماری خوش قسمتی تھی کہ ان کی خاص توجہات اور برکات سے ہم جیسے تہی دامن مدتوں اکتساب فیض کرتے رہے۔ ہائے افسوس موت کے ہاتھوں آپ جیسی عظیم ہستی کو بھی ہم نے گنوا دیا۔ حقیقت میں یہ دارالعلوم اور خاندان حقانیہ کا سانحہ ہے۔ ع متاع ِ دین و دنیا لُٹ گئی اللہ والوں کی