ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
ہوتی تھی کہ کسی دوسرے میں میرے مشاہدے میں کہیں نہیں آئی تھی ۔ میں نے اُن کو بارہا مہمانوں اور خاص کر علماء کی جوتیاں سیدھی کرتے دیکھا میں نے عمر بھر تواضع کا یہ منظر کہیں نہیں دیکھا یہی وجہ ہے کہ میں عام طورپر آضاخیل کے پاس سے کبھی کہیں گزرتا تو باچا صاحب کی خدمت میں ضرور حاضر ہوتا اور اُن کی شفقتوں اور دُعاؤں سے بہت سکون حاصل ہوجاتاتھا۔ مولانا رحیم اللہ صاحب (باچاصاحب) کی سخاوت اور فیاضی بھی بہت مشہور تھی اپنے جیب میں قسما قسم کے پاکستانی نوٹ رکھتے اور ہر کسی کو اُس کے علمی مقام ومرتبے کے موافق کچھ نہ کچھ ضرور عطا فرماتے ۔ میں نے کئی لوگوں کو ان کے عطا کردہ نوٹ کو شیشے کے فریم میں بند کرتے سُنا ہے ، اور یارلوگو ں میں یہ بات بھی مشہور تھی کہ یہ نوٹ دوسرے نوٹوں کو کھینچ لاتے ہیں ۔ بیماری سے پہلے جب بھی مدرسے آتا مدرسے کی مسجد، درسگاہوں اور خاص کر لنگر خانے میں لے جاتے اور زمین سے مٹی اٹھا کر میرے ہاتھ میں دیتے اور فرماتے کہ بسم اللہ شُف کرکے اسے مدرسے میں اُڑ کر بکھیر دو ،تاکہ برکت آوے۔ (اس عمل سے ہمیں بھی اپنی بزرگی کا اچھا خاصا گھمنڈ پیدا ہوجاتا کہ ماشاء اللہ باچا صاحب جیسے قلند ر ہمیں کچھ سمجھتا ہے تبھی تو یہ عمل کرواتا ہے لیکن) یہ عمل باچاصاحب کم وبیش ہر چھوٹے بڑے مولوی صاحب سے کرواتے اور اُس خوش فہمیوں میں اچھاخاصا اضافہ فرماتے ۔ میں نے کبھی اُن کو غصے یا طلبہ وخدام کو ڈانتے نہیں دیکھا اور نہ سنا۔ اُن کی فقیر ی اور قلندری مسلم تھی۔ دور دور تک احباب ومتعلقین کی غمی خوشی میں شریک ہوتے اور علماء کی عزت افزائی میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کرتے ۔ میں جب بھی اُن کے پاس گیا طلبہ وخدام کے ایک ہجوم میں پایا کوئی اُن کے ہاتھ دباتا اور کوئی پیر مجھے اُن کے عاجزانہ اور کریمانہ اخلاق وانداز پر بہت رشک آتا اور بار بار ذہن میں یہ خیال گزرتا کہ کون احمق ہے جو کہتا ہے کہ علماء کی قدر نہیں اور زمانہ خراب ہوچکا ہے کوئی اپنے روِیوں اور بودوباش میں علم کی جھلک تو دکھا دے پھر دیکھے کہ زمانہ قدر کرتا ہے کہ نہیں؟ افسوس ہے اُن لوگوں پر جو عملی اخلاق سے تہی دامن ہیں اور بلاوجہ زمانے کو کوستے رہتے ہیں ۔ علم اللہ تعالیٰ کی صفت ہے یہ واقعی طورپر اپنے لوازمات کے ساتھ موجود ہوتو کوئی بھی اس کی بے توقیری کرنے کا یارا اور حوصلہ نہیں پاتا ۔ اللہ تعالیٰ علماء کو علم کے ساتھ ساتھ اچھے اخلاق اور خلوص وللہیت کی دولت سے نوازے تو اہل دینا مجبور ہوکر خودبخود ان کے پاؤں پر گریں گے ۔ باچا صاحب آخری عمر میں ضعف کیساتھ ساتھ بینائی سے بھی محروم ہوگئے تھے لیکن اسکے باوجود خدام کے جھرمٹ میں تمام تعلقات کو بحسن وخوبی نبھاتے تھے ۔ وہ اپنے خاندان او رمدرسے کا ایک مضبوط سہار اتھے دعا ہے اللہ تعالیٰ دونوں کو اسکا بہترین نعم البدل عطافرماوے۔ امید ہے اُ ن کے برادرخوردمولانا سید نثار اللہ ،اُن کے سب برخورداران بالخصوص مولانا منیب اللہ صاحب اور اُنکے لائق فائق بھتیجے مولانا انوار اللہ صاحب اس خاندان اور مدرسے کی شاندار روایات کو قائم رکھنے میں آخری حد تک سعی وکوشش کرتے رہیں گے ،اللہ تعالیٰ اُنکا حامی ومددگار ہو ۔آمین