ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
؎ د ونے ھغہ شاخ ریبہ شی چی پہ ٹولو چگ وی حاسدہ تہ بہ می سہ وجنی خپل کمال می وجنی فانی صاحب بلا کے حاضر جواب تھے ایک بار میں نے فانی صاحب سے مزاحاً عرض کیا کہ حضرت یہ بنگالیوں نے مچھلیوں کے خوب مزے لوٹے ہیں یہ لوگ سارا سال جی بھر کہ مچھلیاں کھاتے ہیں، فانی صاحب مسکرائے اورفرمایا کہ مچھلیوں نے بھی ان سے خوب مزے لیے ہیںسال میں درجنوں کشتیاں سمندر میں غرق ہوکر مچھلیوں کی خوراک بن جاتی ہیں۔اسی طرح ایک بار ایک دعوت میں ہم دونوں ساتھ بیٹھے تھے ۔میں نے آم کھانے کے بعد شفتالو کھایا توآم کی مٹھاس کے سامنے وہ کافی بدمزہ لگا ۔فانی صاحب میرے چہرے کو دیکھ کر معاملہ بھانپ گئے اور فرمایا کہ ’’پہ بادشاہ خو دے خاورے واڑولے‘‘۔ وہ محبت خیز باتیں وہ کنار آب جو ہے حسیں کتنا تصور ان حسیں لمحات کا فانی صاحب کو چونکہ تصنیف و تالیف سے بھی خصوصی شغف تھا تو میری ہر تصنیف پر بہت خوش ہوتے اوربطور خاص اپنی بیٹھک بلوا کر حوصلہ افزائی فرماتے اورتصنیف پر نظم بھی لکھ لیتے۔ اب کہاں وہ بزمہا و حلقہ ہائے علم و فن حسرتا! ایسی محافل سے ہوئے محروم ہم بہر کیف تلک الایام نداولہا بین الناس کے ارشاد ربانی میں کار جہاں کی بے ثباتی اور اسی حقیقت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ حالات ہمیشہ یکساں نہیں رہتے۔ یہاں سکھ ہے تو دکھ بھی ہے۔ خوشی ہے تو غمی بھی ،اقبال ہے تو ادباربھی اور عروج ہے تو زوال بھی ہے ۔ ہاں اگر کوئی ایک حال پر ہے تو وہ رب ذوالجلال ہے جوجو اس دنیا اور اگلی دنیا کا مالک ہے اور جسکی رحمت ہی کی بدولت اندھیرے اجالے بنتے ہیں، ظلمتیں نور کے لباس پہنتی ہیں، مشکلات کے عقدے کھلتے ہیں، پسماندے آگے بڑھتے ہیں اور درماندوں کو دستگیری کا سہارا ملتا ہے۔ جو فنا کر بقا دیتا ہے اور ہست کو نیست کردیتا ہے۔اگر انسانوں کو ان کے امتیازی خصوصیات کی وجہ سے موت نہ آتی تو بے شمارانسان صبح قیامت تک زندہ رہتے لیکن زندگی کو دوام نہیں۔ ہر انسان موت کا مسافر اور اسکی منزل قبر ہے اور یہی قبر پستی سے ہستی کی طرف پہلا پڑاؤ ہے۔قبر کی گود میں کوئی حکمراں نہیں صرف اعمال ہی روحوں پر حکمرانی کرتے ہیں۔ہاں مگر بعض وجود اتنے بابرکت ہوتے ہیں کہ انکی زندگی گردو پیش کیلئے رحمت و حیات کا سرچشمہ ہوتی ہے اور دل اسی وجود سے محبت و تعلق خاطر کی نسبت سے اسکی رحلت پراتنا ہی نڈھال ہوتا ہے۔حضرت فانی صاحب کے قرب و صحبت میں بیتے ہوئے مہ وسال کے حسین لمحات دل میں آکر آج بھی آنسوؤں کے برسنے کا سامان کرتے ہیں۔حضرت فانی صاحب ہمارے محبوب تھے اور اب تو اس محبت میں اور بھی اضافہ ہوگیا ہے اور یہی محبت ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم انکے ایصال ثواب کیلئے دعائیں کر رہے ہیں اور انکے مشن کو جاری رکھنے کا پختہ عزم کر رہے ہیں۔ اللہ کریم سے دعا ہے کہ حضرت فانی صاحب کے فیوضات و برکات سے ہمیں مستفید ہونے کی توفیقعطا فرمائے اور اعزاء و اقربائ، احباء و تلامذہ اور دیگر تمام متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔