ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
حضرت صدر صاحب نے اپنے خونی بیٹے اور مستقبل کے ہمارے روحانی استاذمولانا’محمد ابراہیم صاحب‘ کو اپنے فنا فی اللہ کے رنگ میں رنگ دینے والی اور ’اسوۂِ حسنہ‘ کہلائے جانے کے لائق ایسی قابلِ تقلید پرورش کی کہ: الحمداللہ! فانیؔ صاحب کی موجودگی میں صدر صاحب کی کمی محسوس نہیں کی جاتی تھی۔ جب سے فانیؔ صاحب نے دارالعلوم حقانیہ میں حفظِ قرآن کریم اور ابتدائی درسی اسباق کے لیے داخلہ لیا، تب سے ہی وہ حقانیہ کے ہوکر رہ گئے تھے۔ چناںچہ استاذ جی نے تمام اسباق دارالعلوم حقانیہ ہی میں پڑھے ہیں۔ مروّجہ تعلیمی نظام سے فراغت کے اگلے ہی سال دارالعلوم حقانیہ میںبہ طور مدرس مقرر ہوگئے اور تاحیات جامعہ ہذا میں درس و تدریس کا سلسلہ بلا ناغہ جاری رکھا۔ استاذ جی اپنے مزاج کے مطابق بذاتِ خود پڑھنے اور پڑھانے کا بہت شوق اپنے دل کے نہاں خانوں میں رکھتے تھے۔اپنے آخری ایامِ حیات میںبسترِ مرگ پر لیٹے ہوئے جب علمی شوق نے تڑپایا اور تعلیمی دُھن نے ستایا ، تو علم و عمل کے پاکیزہ جذبات کی رَو میں بہتے ہوئے قسم کھا کر بندہ سے اپنی غالب خواہش کا تذکرہ فرمانے لگے کہ: ’’ارے رحمت خان! اگر میں خدا ئے ذوالجلال سے صحتِ عاجلہ و کاملہ کی دعا مانگتا ہوں، تو صرف اس لیے کہ میں درس گاہ تک جا کر مہمانانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سبق پڑھائوں ۔ بس! یہ میرے لیے بہت بڑی غنیمت ہے۔‘‘ ہم طلباء اِس بات کو تمام سکہ رائج الوقت موضوعات پر استاذ جی کی وسیع دست رس ہی کہتے ہیں کہ طلباء اکثر آپ رحمہ اللہ سے مختلف موضوعات پر جان دار اور قولِ فیصل کی حیثیت کا حامل کلام فرمانے کی فرمائش کیا کرتے تھے۔ چناںچہ امسال بھی جب علم کی شدید لگن رکھنے والے طلباء نے قادیانیوں کے حوالے سے بہتر سے بہتر مدلل علم کے حصول کے لیے استاذ جی رحمہ اللہ سے اپنی تمنائے علم کا اظہار کیا، توہمارے ممدوح استاذ صاحب رحمہ اللہ کی رواں زبان سے علم کا ایک آبشار بہنے لگ گیا۔ میں اپنے ذاتی حوالے سے یہ کہنا چاہوں گا کہ اُس دن دورۂ حدیث کی درس گاہ میں ایک عجیب ساماں بند گیا تھا۔ نصف گھنٹے کے مختصر سے دورانیے میں استاذ جی نے اسلام و پاکستان کے پیدائشی دشمن قادیانیوں کی مذموم ریشہ دوانیوں کی خوف ناک حقیقت کچھ اس انداز میں واضح فرمائی کہ آج تک قادیانی پروپیگنڈے کو کثیر مطالعے کے باوجود نہیں سمجھ پایا تھا ۔ استاذ جی نے جہاں تدریسی خدمات بھرپور طریقے سے انجام دی ہیں، وہاں استاذ محترم ایک زبردست مصنف بھی تھے۔اردو ، پشتواور فارسی میں آپ رحمہ اللہ نے مختلف موضوعات پر بے حد قیمتی کتابیںتصنیف فرمائی ہیں۔ آپ رحمہ اللہ عوام و خواص میں بہ حیثیت ایک قابلِ قدر اور معاشرے کی نبض شناس مصنف کے طور پر پہچانے جاتے تھے۔ استاذ جی کی 13تصانیف اور تالیفات اب تک موجود ہیں اور کئی گراں مرتبت کتب پر ابھی کام جاری ہے۔ استاذ جی فانیؔ صاحب رحمہ اللہ کو شعر و شاعری سے بہت دل چسپی تھی۔ چناںچہ استاذ جی کی اکثر کتابیں فی البدیہہ اور بے ساختہ انقلابی ، خیال انگیز اور فکر خیز شعر و شاعری ہی کی ہیں۔ شعر و ادب سے خصوصی لگاؤ بھی استاذ جی