ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
اب حضرت ؒاس دار فانی سے چلے گئے ،اسی لیے اکثر لوگوں کو معلوم نہیں کہ ان کے جانے سے کیا کچھ اجڑ گیاہے۔اگر اس ویران بستی کا راز پوچھنا ہوں تو حضرت شیخ الحدیث مولانا عبدالحق صاحبؒ کے پوتے مولانا سمیع الحق صاحب دامت برکاتہم کے صاحبزادے مولانا راشد الحق صاحب سے پوچھوں ۔کہ جو ہر وقت استاذ محترم کے پاس ہوتے۔کہ جب انکو وفات کی خبر پہنچی تو حضرت کی ہر ادا ان کی آنکھوں سے ٹپک رہی تھی۔ حضرت کیساتھ درجہ خامسہ سے لیکر تاوفات کافی تعلق تھا ،کیونکہ وہ اکثر مواقع پر عجیب انداز میں تربیت اور رہنمائی فرماتے تھے جب بھی راقم اپنے ہم سبق دوستوں مولانا عبداللہ حقانیؔ اور مولانا محمد جان حقانیؔ کیساتھ عشاء کے وقت حضرت کے گھر حاضر ہوتے تو حضرت کے چہرے پر خوشی کے آثار دکھائی دیتے اور اپنے اشعار کے گلدستے سے کچھ اشعار خود پڑھ کر سناتے تھے کبھی فرماتے تھے کہ تم لوگوں میں بھی کوئی اشعار یاد کرنے کا شوق ہے یا کہ صرف مجھ سے سنتے رہو گے؟ایک مرتبہ راقم نے حضرت سے ایک کتاب کے متعلق غرض کیاکیونکہ کے شروع سے راقم کی یہی عادت ہے کہ فن کے کتاب کے متعلق اس فن کے ماہر سے پوچھتا رہا ہے تو حضرت سے ’’کلیات ِساغر‘‘کے متعلق پوچھا کہ حضر ت میں یہ کتاب خرید لینا چاہتا ہوں۔کیسا ہے خرید لوں کہ نہیں تو حضرت نے فرمایا کہ ہم ایک مرتبہ سیر کیلئے سوات کے کسی علاقے میں گئے تھے تو ساتھی کسی دوسری جگہ جا رہے تھے انہوں نے مجھے بتایا کہ حضرت آپ ایک دن کیلئے ادھر ٹھہرے حضرت نے فرمایا کہ ٹھیک ہے میں ادھر رہوں گا ۔لیکن مجھے ایک قرآن اور ایک ’’کلیات ساغر ‘‘دیدو ۔پھر اگر میںیہاں پر تمہارے بغیر ایک مہینہ بھی رہو ں تو ان دو کتابوں کے ہوتے ہوئے مجھے کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔(اللہ اکبر) حضرت استاذ محترم نے راقم کی ڈائری میں یہ اشعار خود اپنے دست ِمبارک سے لکھے تھے۔ ؎ زمانہ معترف ہے اب ہماری استقامت کا نہ ہم سے قافلہ چھوٹا نہ ہم نے رہنما بدلا راہ الفت میں گو ہم پر بہت مشکل مقام آئے نہ ہم منزل سے باز آئے نہ ہم نے راستہ بدلا ساغر کے اس شعر کے ٹکڑے پر اس مضمون کا اختتام کرتا ہوں ۔ چمن میں غنچے کھلے ہوئے ہیں مگر نگارچمن نہیں ہے نگاہ میں وسعتیں نہیں ہیں خیال میں بانکپن نہیں ہے ____________________