ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
او راسی کے ساتھ ہی آنسو کی لڑیاں پَروکرخاموش ہوجاتے تھے ؎ کہہ جاتے ہیں اک سانس میں برسوں کے فسانے جب آنکھ کے گوشوں سے ڈھلک جاتے ہیں آنسو احقرؔراقم الحروف سے زمانہ ہسپتال کی داستان رقم کرواتے ہوئے فرماتے تھے کہ اس کو تم ہی نے ترتیب دینی ہے ، جس کا نام انہوں نے ’’داستانِ دلکشاں ، درزمانِ ابتلائ‘‘تجویز فرمایا تھا ۔ احقرؔ فی الحال ان کی دوسری تصانیف ’’دیوانِ فارسی ‘‘ اور ’’حیات صدرالمدرسین‘‘ کی تصحیح میںمَگن تھا ، اور خدمت کی غرض سے ان ساتھ ہسپتال میں رہا، اس لئے سب کچھ معطل ہوگیا ، بنا برایں جب کبھی ’’داستان‘‘کی ترتیب کی بات آئی، تو میں نے یہی کہا کہ ؎ کتابِ عشق لکھنے کی، مجھے فرصت نہیں یاروں ابھی تک بے وفائی پر، مری تحریر جاری ہے اس پر آپ حددرجہ آبدیدہ ہوکر فرمانے لگتے ؎ مرتَّب کر رہا ہوں آنسوؤں کو اور آہوں کو کہ میری زندگی کی داستاں تیّار ہوجائے اور اسی چشمِ اشکبار وپُرنَم کے ساتھ سب سے معافی اور دعا کی درخواست کرتے تھے، کہ ارے ظالمو! جب تم(طلبہ) لوگوں کی دعائیں مقبول ہی ہیں، پھر میرے حق میں کیوں نہیں مانگتے ؟ میں جواباً انہیں کا شعر سنا کر خوش ہوتے تھے کہ ؎ اثر سے ہیں مری خالی دعائیں یہ تاثیرِ دعا لاؤں کہاں سے قارئیں محترم ! وہ لاکھوں دلوں کا مسیحا، ہزارہا سنگ دلوں کو مومِ بنانے والا ،جانے کتنی تبسم سے مایوس کلیوں کو اپنے جادوئی پندونصائح سے قہقہہ زار بنانے والا ، بے شمار کشت ویراں دلوں کو لہلاتا ہوا سبزہ عطا کرنے والا ، جانے کتنے غم کدوں کو شادمانیوں کا تحفہ دینے والا ، سینکڑوںسنگلاخ وادیوں کواپنی مَوعظت بالحکمہ سے سیراب کرنے والا ، خدامعلوم ! کتنے شرک وبدعات میں مبتلا افراد کو ضلالت وگمراہی سے نکال کر رشدوہدایت ہی نہیں ، بلکہ مرشد وہادی بنانے والا ،26 فروری 2014ء بروز ِ بدھ صبح 2:45 کو حیات آباد کمپلیکس کے ۔I.C.U روم کے اندر احقرؔ راقم الحروف کے ’’گود ‘‘ میں ’’کُلُّ مَنْ عَلَـــیْھَا فَان ‘‘ کا نعرہ لگا تا ہوا عالَمِ سروری کو کوچ کرگیا ۔ انا للّٰہِ وانا الیہ راجعون ؎ آنچہ ازمن گمشدہ گر از سلیمانؑ گم شدے ہم سلیمان ہم پری ہم اہر من بگر یستے