ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
کہ اضاخیل کے باچا صاحب وفات پا چکے ہیں تو گو یا ایک غم ابھی مٹنے نہیں پایا تھا کہ غموں کادوسرا پہاڑ گر گیا ۔ یک لخت دو بزرگان دین کی وفات سے گویا ایک خلا پیدا ہو گیا اور دونوں ہستیاں اپنی جگہ مینارہ نو ر تھیں ۔ مسجد نبوی ا میں دونوں کے لیے علیحد ہ علیحدہ اجتماعی دعا کی۔ دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ان بزرگان دین کو جنت الفردوس میں بہترین مقامات عطافرمائے اور ان کے جانے سے جو خلا پید اہو ا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اس کو پر کردے۔ امین ۔ ذیل میں فانی صاحب کے فکر و فن کی ایک مختصر جھلک نذر قارئین ہے۔ حافظ محمد ابراہیم فانی صاحب ۱۵؍اپریل ۱۹۵۴ء کو ضلع صوابی کے مشہور گاؤں زروبی میں متکلم عصر حضرت مولانا عبدالحلیم صاحبؒ صدر المدرسین دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے گھر پیدا ہوئے۔ ناظرہ قرآن کریم اپنے گھر پڑھا۔ مولانا پر اللہ تعالیٰ کی خصوصی نظرِ کرم ہے کہ پہلے پارہ کے دو تین ورق پڑھنے کے بعد دیگر پارے بغیر استاد کے پڑھے ۔ مڈل تک عصری تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کی اور سکول کے ساتھ ساتھ اپنے والد مکرم ؒ سے دینی رسائل اور فارسی نظم کے رسالے پڑھتے رہے۔ مثلاً کریما‘ پنج کتاب اور گلستان سعدی وغیرہ۔ میٹرک کا امتحان ۱۹۷۰ء میں پاس کیا اور دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں داخلہ لیا اور ساتھ ساتھ حفظ القرآن میں بھی مشغول رہے۔ درس نظامی کے ساتھ ساتھ شیخ القرآن مولانا عبدالہادی شاہ منصوری سے شاہ منصور میں ترجمہ و تفسیر بھی پڑھا اور آپ نے قرآن پاک بھی حفظ کیا ۔ ۱۹۷۸ء میں درس نظامی سے فراغت حاصل کی۔ اور دارالعلوم حقانیہ میں بحیثیت مدرس آپ کا تقرر ہوا اور صرف و نحو ‘ منطق اور ادب کی مختلف کتابیں تفویض ہوئیں اور آج تک دارالعلوم ہی میں شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں اور درجات عالیہ کی کتابیں پڑھا رہے ہیں۔ فانی ؔ صاحب کو زمانہ طالب علمی ہی سے لکھنے کا شوق دامن گیر تھا اس لئے فارسی‘ اردو ‘ پشتو‘ عربی میں لکھتے رہے۔ شعر و شاعری اور ادب کے ساتھ ابتداء ہی سے شغف تھا اپنی مادری زبان پشتو میں شاعری کرتے رہے۔اسی طرح فارسی میں بھی طبع آزمائی کی کوشش کی جس میں آپ کامیاب رہے۔ زمانہ طالب علمی میں آپکی بعض غزلیں پشتو رسائل اور مجلات میں چھپتی رہیں۔ ساتھ ساتھ اہم مضامین کے تراجم بھی کرتے رہے اسکے بعد وقتاً فوقتاً ملک و بیرون ملک کے مختلف جرائد او راخبارات میں آ پ کے مضامین شائع ہونے لگے۔دراصل شاعری اللہ تعالیٰ کی دین ہے یہ کسی کے بس کی بات نہیں۔ شاعر کے دل پر شعروں کا نزول ہوتا ہے، جچے تلے الفاظ، بحریں، روح پرور اور دلکش انداز بیان وغیرہ یہ سب باتیں یکجا ہوکر ایک خوبصورت شعر کی صورت میں نمایاں ہوتی ہیں اور اسی کو آمد کہتے ہیں۔ اس لحاظ سے شاعر براہِ راست اللہ تعالیٰ کا شاگرد ہوا۔ اسی لیے کہا گیا ہے "الشعراء تلامیذ الرحمن