ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
تبلیغی گشت نکالا اور بیان کیلئے حضرت ؒ سے وعدہ لیا۔ مغرب کے بعد جب آپ بیان کیلئے کھڑے ہوئے تو خطبہ مسنونہ کے بعد فرمایا! میرے چند اشعار ہیںوہ سنائے دیتا ہوں۔ اشعار سُنانے کے بعد فرمایا کہ طلباء و علماء سے بیان کرنا اکوڑہ کے باغبان پر سبزی فروشی ہے تاہم طلباء کا اصرار ہے اس لئے چند کلمات بیان کرنا چاہتاہوں اور پھر تقویٰ کی موضوع پر نہایت ہی شیرین بیان فرمایا : فانی صاحبؒ ادبی ذوق و تدریسی خدمات کیساتھ ساتھ ملنساری کے پیکر تھے۔ اتنے بڑے اسکالر کو کئی قسم کی مراعات کی پیشکش کیوں نہ ہوئی ہوگی مگر فانی صاحبؒ نے فانی زندگی کو خاک پر بیٹھنے والے طلباء اور حقانیہ کیلئے قربان کر دیا۔ بڑے بڑے عہدوں اور زمانے کی غلامی کو ایسا ٹکرایا کہ آج رحمہ اﷲ کے مستحق بن رہے ہیں اور زمانے کو بزبان حال خود اور ابن سناء الملک کو بزبان قال یوں مخاطب کیا۔ (۱) وانک عبدی یا زمان واننی (۲) علے الرغم منی ان اری لک سیدا (۳) وما انا راض اننی واطی الثری (۴) ولی ہمۃ لا ترتضی الافق مقصدا عموماً شاعر و مصنف کا طریقہ انا نیتی ہوتا ہے۔ ادیب، شاعر، مصوّر اور اہل قلم کی خصوصیت ہی انانیت ہوتی ہے جس سے فکری انفرادیت کا اندازہ ہوتا ہے اور یہ ایک قدرتی سرجوش ہے جسے دبا نہیں جا سکتا اور کوئی دبائے بھی تو اور زیادہ اُبھرنے لگتی ہے تاہم ان انا نیتی ادبیات میں بھی فانی صاحب ’’میں‘‘ کی جگہ لفظِ فانی استعمال فرماتے تھے۔ ع فانی بیچارہ وہ واقفِ و دانائے راز فانی صاحب کی دارالعلوم حقانیہ سے خوب وابستگی اورگہرے تعلقات تھے سفر وحضر ،صحت وعلالت ،عسر ویسر الغرض کسی بھی حالت میں حقانیہ کو فراموش نہ فرمایا حقانیہ سے وابستگی کا اندازہ فانی صاحب کے ویڈیو کلپ سے ہوتا ہے کہ ایام علالت میں ہسپتال ہی سے طلباء کو کچھ نصیحتیں ، یاداشت اور وصیت جاری فرمایا اور حضرت مہتمم صاحب اور ان کے خاندان کی جانب سے احسان مندی کا اقرار محبت کیا کیا شاخ گل پہ پھول کی بیٹھی ہے عندلیب ایسا نہ ہو کہ چشم فلک کو برا لگے آپ کی وفات سے ادبی میدان کا اگر چہ ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے مگر سب سے زیادہ تعزیت کے مستحق جامعہ حقانیہ کے مہتمم صاحب ہیں کہ وہ ایک کامیاب مدرس ادیب اور شاعر سے محروم ہو گئے ہیں لیکن اس بات