ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
خدمت کو عالم چار دانگ تک پھیلایا۔ شاید حافظ شیرازیؒ نے انہی جیسے حضرات کے بارے میں فرمایا تھا: خیال قد بلند تو میں کند دل من تو دست کو تہ من بین و آستین دراز سطور ذیل میں استاد محترم حضرت مولانا محمد ابراہیم فانی صاحب کا کچھ تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ خوبیاں استاد کی ہوتی کچھ یہاں پر بیاں تاکہ اوصاف حمیدہ سب پہ ہو جائیں عیاں حضرتؒ ایک مشفق و کامیاب مدرس تھے۔ کامیاب مدرس کا ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ امکانی حد تک علم میں کمال رکھتا ہو، خصوصاً اس مضمون میں جس کے پڑھانے کی اس پر ذمہ داری ڈالی گئی ہو کیونکہ استاد کو اس مضمون میں جتنی مہارت و دسترس ہو گی اتنا ہی مفید ہوگا۔ حضرتؒ سے راقم نے علم ادب کی مشہور اور مشکل ترین کتاب ’’دیوان الحماسہ‘‘ پڑھی اور حق تو یہ ہے کہ حق ادا کیا۔ فانی صاحب انتہائی سریع المطالعہ و ذہین شخصیت تھے۔ راقم جب حقانیہ میں درجۂ سادسہ کا طالب العلم تھا تو اس وقت ایک موضوع پر مضمون لکھا۔ مضمون کواصلاح کی خاطر حضرتؒ کے پاس لے جانا چاہا کہ اتفاقاً راستہ ہی میں ملے۔ راقم نے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو فرمایا کہ اس وقت تو میں بازار کسی کام سے جا رہا ہوں چنانچہ بازار کی مطلوبہ خدمت راقم نے کی اور مضمون خدمت اقدس میں پیش کیا۔ راقم جب بازار سے واپس ہوا تو مضمون مطالعہ کر چکے تھے۔ فرمایا! بہت خوب لکھا ہے، لکھتے رہو، ساتھ ساتھ کچھ اصلاح بھی مضمون میں کی تھی۔ فانی صاحب ایک اعلیٰ قسم کے مصنف تھے۔ خود راقم نے حضرت ؒ ہی سے بار ہا سُنا، فرمایا کرتے تھے کہ حضرت مولانا سمیع الحق صاحب دامت برکاتہم العالیہ کا مجھ پر بڑا احسان ہے کہ مجھے قلم و قرطاس حوالہ کیا اور یہی انہی کا مرہون منت ہے۔ فانی صاحبؒنے اس عظیم خدمت کو مقصد اور بلند نصب العین جان کر پورا کیا۔ سمایا ہے جب سے تو نظروں میں میری جدھر دیکھتا ہوں اِدھر تو ہی تو ہے فانی صاحبؒ اسی حقانیہ میں کبھی طالب العلم رہے۔ فراغت کے بعد کبھی مدرس، کبھی ادیب اور کبھی شاعر سے تذکرہ آجاتا۔ شعر و شاعری میں فانی صاحبؒ کو باری تعالیٰ نے ایک خاص بداھتی ملکہ سے نوازا تھا۔ بیک وقت عربی، فارسی، اُردو اور مادری زبان میں شاعری کرتے تھے۔ گوکہ فانی صاحبؒ کی شاعری میں سعدی شیرازی، اقبال، غالب اور رحمن بابا کی جگہ اگر چہ پوری نہ ہوئی مگر کمی ضرور پوری ہوئی تھی اور اب بمشکل کئی زبانوں کا شاعر موجود ہوگا۔ ساتھ ساتھ خطابت میں بھی اﷲ تعالیٰ نے خاص ملکہ سے نوازا تھا۔ ایک بار اسی حقانیہ میں طلباء نے مروجہ