ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
دفعہ ملنے کا وقفہ دراز ہوجاتا ، لیکن اس احساس سے خوش رہتا کہ وہ موجود ہیں ، جب چاہوں گا ، ملاقات ہوجائے گی ۔ آہ ! اب کس کے پاس اس اعتماد ویقین کے ساتھ جائیں گے کہ ان شاء اللہ نہ صرف یہ کہ تشنہ کا م نہیں آئیں گے ، بلکہ کہ غیر حاضری کے اس عرصے میں ، صحرائے زندگی نے جو کانٹے چبھودئے ہیں سبھی یک لخت نکل جائیں گے ۔ … جلوہ افگن تھیں، یہاں کیا کیا مبارک ہستیاں دیکھتے ہی دیکھتے نظروں سے پنہاں ہوگئیں اب کہاں ’’واصف‘‘ملیں گے وہ گذشتہ صحبتیں اب وہ باتیں سربسر خوابِ پریشاں ہوگئیں وہ مجالس ومحافل جو حضرت محترم استاد جی کے ہوئے ہیں ان کا کیف ودلربا منظر اب تک میرے سامنے ہے۔ ان صحبت ومجالس کی بدولت ہمیں استاد محترم سے علمی و ادبی سرمایہ نصیب ہوتا اور عجیب وغریب نکات معلوم ہوجاتے۔ استاد محترم ہر شریکِ محفل ساتھی کو اس انداز سے مخاطب کرتے گویا کہ ان کی برسوں پرانی بے تکلف یاری ہو … جب کبھی اہلِ وفا یاد کریں گے مجھ کو جانے کیا کیا میری روداد کے عنوان ہوں گے حضرت محترم استاد کی صحبت میں رہ کر طبیعت میں بشاشت آتی، اور دل مسرور ہوتا … ہجوم کیوں ہے زیادہ ’’شراب خانے‘‘ میں فقط یہ بات کہ پیرِمغاں ہے ’’مردِخلیق‘‘ والدمحترم حضرت مفتی صاحب کیساتھ عقیدت و محبت : اور حضرتِ استاد ’’فانی‘‘صاحب کے مابین محبت وادب کا رشتہ حضرتِ استاد محترم فانی صاحب میرے حضرت قبلہ والد صاحب حضرت مولانا مفتی سیف اللہ حقانی دامت برکاتہم کے استاد شیخ الحدیث والتفسیر ،الامام الفقہہ مولانا عبدالحلیم نوراللہ مرقدہٗ کے فرزند ارجمند تھے ، اسی وجہ سے ان کو بہت ہی عزیزِ جان رکھتے تھے اور ان سے محبت ، احترام اور ادب کا معاملہ فرماتے تھے، اور یہی محبت کا معاملہ حضرت استادِ محترم’’ فانی ‘‘ صاحب ؒ کا احقر کے ساتھ بھی فرماتے تھے ۔ استادِمحترم حضرت ’’فانی‘‘ صاحبؒ نے جناب قبلہ والد صاحب کی شان میں ایک قصیدہ تحریر کرکے خود فریم کرادیا تھا، اور پھر اس فریم شدہ قصیدہ کو لے کر حضرت قبلہ والد صاحب کی خدمت میں پیش کرکے سنایاتھا جس سے اس وقت کے شرکائے محفل کافی محظوظ ہوئے تھے ۔