ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
مولانا محمد ابراہیم بلیاوی ؒ اور حضرت مولانا رسول خان ہزاروی ؒ جیسے اساطین ِ علم کے شاگرد تھے۔ منبع فیض دارالعلوم دیوبند کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ اس کے فارغ التحصیل درس و تدریس ‘ خطابت ادب اور تحریر و تصنیف کے میدانوں کے شہسوار ہوتے ہیں‘ چنانچہ یہ سب خوبیاں صدرالمدرسین میں جمع تھیں اور وہاں سے مولانا فانی کو وراثت میں ملیں۔ اسی طرح مولانا محمد ابراہیم فانی کی بہترین تربیت ہوئی اور وہ حقانیہ کے سینئرمدرس ہونے کے ساتھ ساتھ تحریر و تقریر ‘ ادب ‘ تصنیف و تالیف ‘ تدوین و تادیب کے ماہر فن اوریکتائے زمانہ تھے۔انہوں نے پہلی تصنیف اپنے والد محترم حضرت مولانا عبدالحلیم ؒ متوفی ۱۹۸۳ء پر لکھنے سے شروع کی‘ ان کی یہ پہلی تصنیف ۱۹۹۰ء کو منظر عام پر آئی۔اس تصنیف میں انہوں نے بہت اعلیٰ مہارت ‘ فنی رسوخ‘ زبان پر عبور اور عمدہ ترتیب و تدوین کا مظاہرہ کیا۔یہ کتاب دیکھنے اورپڑھنے سے تعلق رکھتی ہے‘ میری خوش قسمتی ہے کہ یہ کتاب مجھے حضرت مولانا عبدالقیوم حقانی نے اپنے کتب خانے سے عنایت فرمائی او راپنے محبوب دوست فانی کے ساتھ والہانہ محبت و تعلق کے ناطے مجھ ناچیز کو لکھنے پر ابھارا۔ حضرت حقانی کو اللہ تعالیٰ نے اکابر واصاغر سے نزدیک ترین تعلق قائم رکھنے کا بہت اعلیٰ ذوق عطا فرمایا ہے۔ اس مصروف ترین دور میں فون پر اور خطوط کے ذریعے تعلق کو جوڑے رکھتے ہیں۔ یہ تعلق اتنا پکا اورمضبوط ہوتا ہے کہ مرنے والوں سے بھی بصورت ِ دعا ‘ تحریر‘ نثری مرثیوں اور لواحقین سے قریبی رابطوں کے ذریعے ہمیشہ جڑا رہتا ہے۔ اب کی بار مولانا فانی کو حقانی صاحب برابر یاد فرماتے رہتے ہیں اور زبان ِحال سے بتاتے رہتے ہیں کہ ع رفتید ولے نہ از دل ِ ما اسی طرح مولانا عبدالقیوم حقانی کی کتابوں پر انہوں نے وقتاً فوقتاً جو تبصرے اپنے گہر بار قلم سے قرطاس پرمنتقل کئے وہ بعد میں ’’نقوش حقانی‘‘ کے نام سے چھپ گئے۔ یہ تبصرے بجائے خود ایک علمی خزانہ اور بکھرے لعل و جواہر ہیں جوایک سچے او رمحب صادق ساتھی نے دوسرے صدیق مکرم کوپیش کئے ہیں۔ مولانا حقانی نے جو کچھ لکھا اس کی تو ایک دنیا معترف ہے مگر فانی مرحوم نے جس ذوق وشوق اوردل کی گہرائیوں سے انہیں خراج تحسین پیش کیا ہے وہ ایک علمی وادبی متاعِ گرانمایہ ہے۔ تبصرے پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اپنے دوست کے کام کو اجاگر کرتے ہوئے بین السطور انہوں نے بلاقصد اپنے علم وفضل کو منظر عام پر لایا ہے۔ خوشتر آں باشد کہ سردلبراں گفت آید درحدیث دیگراں ’’نقوش حقانی‘‘ کے پیش لفظ میں فانی نے جوکچھ لکھا ہے‘ وہ قلم پر ان کی گرفت اور ایک مشتاق وباکمال ادیب ہونے کی دلیل اور ایک صاحب کرامت وپارسا شخصیت ہونے کاواضح ثبوت ہے۔ ملاحظہ ہو: ’’آخر میں اپنے معزز قارئین سے اجازت چاہتاہوں اس دعا کیساتھ کہ اللہ تعالیٰ برادرم مولاناعبدالقیوم حقانی صاحب کو مزید لکھنے کی توفیق ارزانی فرمائے کیونکہ ابھی آپ کی عمر بھی شباب پر ہے اور قلم پر بھی بہار ہے۔