ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
نے سبق ختم کرکے ہم درسگاہ سے واپس جارہے تھے ۔ الغرض استاذ محترم نے تادم مرگ اشتغال بالعلم اوردرس وتدریس کا سلسلہ جاری رکھ کر علم کے دریا بہاتے رہے۔ آپ اپنی ذہانت ،تبحر علمی ورسوخ فی العلم کی بدولت تمام دینی وعلمی اورعوامی حلقوں میں نہایت مشہور تھے ۔ درس وتدریس کے ساتھ ساتھ آپ بلند پایا ، ادیب ،مصنف اور مؤلف بھی تھے ۔آپ اپنے علمی تالیفی کمالات میں اکابرین کے سچے جانشین اور ان کا مایہ ناز یادگار تھے، جن پر آپ کی محققانہ مؤرخانہ اورادیبانہ علمی تالیفات وتصنیفات شاہد عدل ہیں۔ آپ کے کئی تصنیفات منظر عام پر آچکی ہیں، جن سے علماء اور عوام الناس استفادہ کررہے ہیں ۔ اور انشاء اللہ یہ کتابیں حضرت الاستاذ کی آئندہ نسلوں سے روحانی رابطے کا ذریعہ ہونگی۔ حضرت الاستاذ ، پشتو ،فارسی ، اردو، ان تینوں زبانوں کے بیک وقت قادرالکلام شاعر تھے ۔ میں ایک ڈاکٹر کے پاس بیٹھا تھا جو کہ ڈاکٹری کے ساتھ ساتھ شاعری کا مشغلہ بھی رکھتے تھے۔ اس نے کہا کہ حضرت فانی صاحب پشتو زبان کے وہ واحد شاعر ہیں جس کا فارسی زبان میں مجموعہ چھپ کے آرہاہے ، جبکہ اورحضرت الاستاد کے کئی شعری مجموعے منظر عام پر آچکی ہیں ۔ بایں علم وفضل اور ہمہ کمالات سے متصف ہونے کے باوجود حضرت الاستاد عادات واطوار کی سادگی میں خود اپنی مثال آپ تھے ہرقسم کی تکلیف سے دور رہتے ۔گفتگو طرزکلام میں کوئی تصنع نہ تھا۔ سادہ وضع کے کپڑے پہنتے تھے۔ لباس میں کسی قسم کے ترفہ وتصنع سے کام نہ لیتے۔ اپنے شاگرد وں کے ساتھ حدودکے اندر اتنہائی شفیقانہ رویہ رکھتے تھے ۔ آپ نہایت خاکسار اور شریف الطبع قسم کے آدمی تھے ۔ طبیعت میں ظرافت بھی تھی لیکن ایسا برمحل استعمال کہ آپ کے رعب وادب میں کوئی کمی نہ آتی ۔ ہمارا ایک رشتہ دار جس کا نام گوہر زمان ہے ، اس کا حضرت الاستاذکے ساتھ زمانہ طالب علمی میں بہت تعلق تھا ۔درجہ خامسہ کے سال جبکہ ہم حضرت الاستاد سے متنبی پڑھ رہے تھے، آپ ہمارے کمرے تشریف لے آئے کمرے میں کئی ساتھی تھے ۔ مولوی نقیب احمد جہانگیر وی بھی موجود تھے ۔ تو انھوں نے ہنس کر حضرت الاستاذ سے کہا کہ مولوی گوہر نے گناہ کبیرہ وصغیرہ دونوں سے توبہ کی ہے اس جملہ سے ساری مجلس بہت محظوظ ہوئی ۔ ایک دفعہ میں نے حضرت سے کہا کہ چائے کے لئے ہمارے کمرے میں تشریف لے آئیں حضرت نے اثبات میں سرہلایا کہ میں آرہا ہوں میں کمرہ جاکر نہایت پریشان ہوا کہ کمرے میں کوئی ساتھی نہیں، کیونکہ چائے کے ساتھ عدم ذوق کی وجہ سے چائے بنانا مجھے نہیں آتا، تاہم! ساتھ والے کمرے کے ایک ساتھی سے رہنمائی حاصل کرکے چائے میں نے بنائی ۔ معلوم نہیں چائے کیسی تھی تاہم حضرت الاستاد نے نوش فرمائی ۔ زمانہ طالب علمی کے بعد بھی کبھی کبھار حضرت الاستاد سے ملاقات ہوتی تھی۔نہایت محبت وشفقت کا معاملہ فرماتے ۔ آپ کا ہنس مکھ اورپر نورچہرہ دیکھ کر ہمار ادل خوشی سے جھوم اٹھتا۔ حضرت نے میری پہلی تالیفی اور