ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
اور ایسے اہلِ علم وفضل کے جانے سے جو خلا پید اہوجاتی ہے، ا سکا پر کرنا مشکل ہوتاہے۔ حدیث کا مفہوم ہے کہ عالم کی موت سے اسلام میں ایک دراڑ پیدا ہوتا ہے۔ نیز ارشاد ہے کہ پورے قبیلے کی موت ایک عالم کی موت سے ہلکی ہے۔ لیکن کیا کرے؟ دنیا کا یہی دستور ہے، اور کوئی بھی دنیا میں نہ ہمیشہ رہاہے اور نہ رہے گا ۔ ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے زمین کھا گئی آسماں کیسے کیسے اللہ کریم سے دست بدعا ہوں کہ حضرت االاستادکی کروٹ کروٹ جنت الخلد میں داخل فرمادیں ،اور پسماندگان کو صبر جمیل واجر جزیل عطا فرمائیں ۔ انشاء اللہ! حضر ت استاد کے مایہ ناز خدّام اور تلامذہ آپ کے دینی ، تدریسی ، تصنیفی مشن کو آگے بڑھانے میں جدوجہدوکوشش کرتے رہیں گے، اور آپ کے علمی ورثے کو محفوظ کرکے آئندہ نسلوں تک منتقل کرتے رہیں گے ،جو یقینا حضرت کے لئے اُخروی درجات کے حصول کا سبب بن کر’’ مَن صَاربالعلمِ حیًّا ، لَمْ یَمُت أبدًا ‘‘ کا مصداق بنے گا اورآپ کی روحانی تسکین کا ذریعہ ہوگا۔ 1990ء میں راقم الحروف نے دیوبند ثانی دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں داخلہ لیاتو حضرت الاستاذ سے سال اول ہی میں شناسائی ہوئی ۔آپ ہمیں منطق کی کتابیں پڑھاتے تھے ۔ قبل ازدرس آپ ضرور حاضری لیتے تھے۔ اکثر طلباء لبیک کے بجائے یس سر کہتے تھے ،کیونکہ عموماً طلباء سکول وکالج سے پڑھ کر آئے تھے او رسکولوں میں حاضری کے دوران یس سر ہی کہا جاتا ہے، جس سے استاذ محترم کی طبیعت پر گرانی ہوتی، اس لئے طلباء کو سمجھاتے تھے کہ لبیک کہا کریں تاہم بعض طلباء پھر بھی ہٹ دھرمی کی وجہ سے نہیں، بلکہ بھول کر عادت کی وجہ سے یس سر کہتے تھے جس پر استاد محترم ناراض ہوکر کہتے کہ آپ لوگوں کے دماغ، مرغی کی طرح ہے کہ جلدی بات بھول جاتے ہو ۔ اللہ کریم نے تدریس کے ملکہ سے آپ کو نوازا تھا ۔اور آپ طبعی طور پر درس وتدریس کے آدمی تھے، اور تدریس ان کی طبیعتِ ثانیہ بن چکی تھی۔ گویا کہ علوم نبویہ اور فنون دینیہ کی تدریس بھی ان کی روح وجان کی اصل غذا اور مدارِحیات ہے ۔ علمی سرمایہ کو مقید کرنے اور آگے پھیلانے اور منتقل کرنے کا سب سے ذود اثر ومؤثر ذریعہ درس وتدریس ہے ۔ ہمارے جتنے بھی اکابرین دیوبند واساتذہ کرام اکوڑہ خٹک میں گزرے ہیں ،ان کی شہرت اورعلمی عظمت کی وجہ تدریس تھی ۔ حضرت الاستاذ کی طرز تدریس انوکھی تھی۔ لمبی لمبی تقریریں اورخامخواہ قیل وقال کی بحث کرنا آپ کی عادت نہ تھی، بلکہ مختصر وقت میں سارے سبق کا خلاصہ قلیل الفاظ میں سمٹ کر بیان فرماتے ۔ مشکل سے مشکل عبارت کے حل کرنے میں نہایت سہل انداز سے کام لیتے یہی وجہ تھی کہ غبی سے غبی طالب علم بھی سبق سمجھ لیتا ۔ مختصر وقت میں سبق ختم کرکے سیدھے درس گاہ سے باہر تشریف لے جاتے ۔مجھے خوب یاد ہے کہ ہمارے ایک ساتھی جو کچھ بیماری کہ وجہ سے کسلمندی کے شکار تھے۔ ایک دفعہ ایسے وقت میں سبق کے لئے درسگاہ آرہے تھے کہ حضرت الاستاذ