ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
تصنیفی کاوش’’ تقویٰ واہل تقویٰ‘‘ پر شاندار تبصرہ بھی لکھا تھا، جو یقینا میرے لئے اعزاز ہے۔ آپ تحریری وتالیفی میدان میں اپنے شاگردوں کی بہت حوصلہ افزائی فرماتے، اور اس میدان میں قدم رکھنے پر مبارک باد پیش کرکے آگے بڑھنے کی ترغیب دیتے تھے ۔ حضرت الاستاذ کے ساتھ اس عاجز کی بہت ساری یاداشتیں وابستہ ہیں۔ حضرت کا میرے والد محترم( جو کہ حقانیہ کے فضلاء میں سے ہیں، اور حضرت الاستاذ کے ہمنوا بھی تھے) کے ساتھ اچھا تعلق تھا۔ملاقات کے دوران ضرور مجھ سے میرے والد صاحب کی خیریت دریافت فرماتے تھے حضرت کی علالت کا علم پہلے سے تھا، لیکن شدت مرض کی خبر اکوڑہ خٹک ہی میں ہوئی۔ وہاں ایک صاحب نے کہا کہ حضرت کا شوگر بہت ہائی ہے ،جس سے آپ کے دونوں گردے بھی متأثر ہیں ۔یہ جانکاہ خبر سن کرنہایت پریشانی ہوئی اور بہت شدت کے ساتھ ملاقات وبیماری پرسی کی خواہش دل میں پیدا ہوئی۔ حضرت حیات آباد کمپلکس ہسپتال کے کڈنی سنٹر میں زیرعلاج تھے۔ آپ کے انتقال پرملال سے دودن قبل مولانا عصمت اللہ لکی مروت بھائی، بختیار مینوی اور راقم اثیم ہم تینوں ہسپتال گئے،لیکن حضرت الاستاد کی حالت دیکھ کر پریشانی میں اور اضافہ ہوگیا۔ ہم اپنے اس استاد کے سامنے ایسی حالت میں کھڑے تھے کہ کسی زمانے میں جب آپ کے سامنے آجاتے ،تو مصافحہ پر اکتفاء کئے ہوئے بغیر پرجو شیلے انداز میں معالقہ کرتے اور ایک سانس میں کئی باتیں کرجاتے۔ لیکن وہی شخصیت ایسی خاموش کہ ہمارے آنے سے بے خبر۔ وہاں موجود حضرت الاستاد کے صاحبزادہ اور شاگرد وں سے ہم نے پوچھا کہ حضرت کی بیماری کا کیا حال ہے؟ وہ نہایت مطمئن تھے کہ ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ حضرت جلد ہی روبہ صحت ہوجائیں گے ۔تاہم! حضرت کی ظاہری خدوخال دیکھ کر دل کو یہ باورکرانامشکل تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ حضرت الاستاد بہت جلد ہی دنیا کی سرحد کو پارکرکے آخرت کے میدان میں پہنچ جائیں گے۔ بلاریب! موت وحیات اس عالَمِ کو ن وفساد کا خاصہ ہے۔ زندگی موت کی تمہید ہے۔ یہاں کا مقیم کل کا مسافر ہے۔ اللہ کا تکوینی فیصلہ ہے’’ کلُّ نفس ذائقۃ الموت‘‘ سے نہ نبی مستثنیٰ ہے ،نہ ولی، نہ عالم اور نہ جاہل، سب نے موت کا پیا لہ چھکنا ہے ۔ بدھ کے دن کسی نے موبائل پیغام پر یہ جانکا ہ خبر بھیجی کہ حضرت الاستاد محمد ابراہیم فانی وفات پاگئے ۔ ان کا پہلا جنازہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں ادا کیا جائے گا اوردوسرا اپنے گاؤں زروبی میں۔گویا حضرت الاستاد ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہم سے ایسے جدا ہوگئے کہ اگرسمندر کو کھنگال لا ئے تو بھی نہیں ملیں گے ؎ چل دیئے آخر زبانوں یہ کہانی چھوڑ کر عالَمِ باقی کی جانب دارِ فانی چھوڑ کر ٭ ٭ ٭