ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
ہیں میں ایک بار پھر فانی صاحب کی مقناطیسی شخصیت پرغورکرنے لگا۔اس مرتبہ میری سوچ میرا سرمایہ ثابت ہورہے تھے ۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے کسی جگہ لکھاہے ۔ دنیا کاخوش قسمت اوربلند مرتبہ انسان وہ ہے جو بیک وقت مدرس،مقرراور محرر ہو، فانی صاحب بھی ان خوش قسمت اور بلند مرتبہ انسانوں میں سے ایک تھے ۔ میں گراونڈ پہنچ گیا اس بار میں اکیلا نہیں تھا ۔ میرے آگے پیچھے ایک قافلہ رواں دواں تھا میں نے پہلی صف میں جگہ بنالی ۔ لوگ آرہے تھے ایک کے بعد ایک سب فانی صاحب کے عقیدت مند،ضلع صوابی کے مردان کے ، سوات اور بونیر سے آنے والے معلوم ہوا کہ ضلع دیر کے آخری سرے سے فانی صاحب کا ایک دوست فضلِ عظیم صاحب بھی ہانپتے ہانپتے پہنچ گئے ۔ میری سوچ کے جگنو غم کے اندھیرے میں پھر جگمگ کرنے لگے ۔ فانی صاحب دارِ حشر کے دربار میں پیش ہوں گے تو اکیلے نہ ہوں گے ۔ ان کے ساتھ ان کے عالم وفاضل شاگردوں کا ایک ہجوم بھی ہوگا ۔ صدقہ جاریہ کے طور پر۔ اور فانی صاحب کے اخلاص،محبت ،درویش طبعی ، علمیت ، تدریسی خدمت ، للہیت کے اطمینان بھرے لمحات بھی گواہوں کی صورت میں ان کیساتھ ہوں گے میں یہی کچھ سوچ رہا تھا کہ جنازگاہ میں لگے لاوڈاسپیکر پر فانی صاحب کے چیدہ چیدہ ساتھی اساتذہ اورفاضل شاگرد باری باری آنے لگے ۔ فانی صاحب کی علمی وتدریسی خدمات کو بیان کرتے آنے والے عقیدت مندوں کا شکریہ بھی ادا کیا۔ اس دوران میں صفیں درست ہوتی رہیں انھوں نے بیانات کے بعد محمود زکی کی دستاربندی کی ۔ ان کے لیے دعا کی کہ اللہ محمود زکی کو فانی صاحب کاصحیح جانشین بنائے آمین ۔ اس دنیائے سودوزیاں کے اکثر لوگ ذوق دہلوی کے اس شعر کے مصداق آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں ۔ لائی حیات ، آئے قضا لے چلی ،چلے اپنی خوشی سے آئے نہ اپنی خوشی چلے فانی صاحب بے شک اپنی خوشی سے تو نہ آئے تھے لیکن رخصت ہونے میں ان کی فانی رضا شامل تھی ۔ وہ اپنے حصے کا کام خوشی خوشی نمٹاکر چلے گئے ۔ خوب تیاری کرکے گئے وہ سب کام بخوشی سرانجام دئے جو اللہ تعالی نے ان کے ذوق کے مطابق ان کے ذمے لگائے تھے ۔ ایک انگریز دانش ور کاقول ہے : کہ وہ انسان خوش نصیب ہے جسے منصب بھی اس کے ذوق کے مطابق ملے ۔ تدریس،تحریر اور تقریر جو ہرکسی کے بس کی بات نہیں اللہ تعالی نے یہ سب اہم کام فانی صاحب کے لیے آسان بنادئے تھے ۔ تب تو ہم ان کی زندگی پر رشک کرتے رہے اور آج ان کے عقیدت مندوں کا ہجوم دیکھ کر ہمیں ان کی موت پربھی رشک آیا : موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس ورنہ دنیا میں سبھی آتے ہیں مرنے کے لیے