ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
کوئی فرق نہیں انکی بھی دا ڑھی نہیں ہے اور تم بھی داڑھی کے بغیر ہو ،1977ء میں ہمارے کلاس میں ایک دو طلبہ کے علاوہ سب کی داڑھی نہیں تھی سن بلوغت کو پہنچے تھے مگر داڑھی کسی بھی کی نہیں آئی تھی فرمایا کرتے تھے کہ عورتیں گھر کے اندر ہوتی ہیں اور تم کھلے عام پھرتے ہو ستر وغیرہ کے قوانین کا تم پر اطلاق نہیں ہوتا مگر یاد رکھو ہر زندہ سر کے لئے کسی نہ کسی جگہ پر شکاری موجود رہتا ہے ۔ نظام فطرت کے اندر یہ سلسلہ قائم دائم ہے شکار بے چارے کو علم نہیں ہوتا ان کا تعلق چرند سے ہو یا بری ، بحری اور ہوائی مخلوق میں پائے جاتے ہوں مگر زیر ک اور تیز ترین شکاری کے نرغے میں کسی نہ کسی وقت آسکتے ہیں اور تم جیسے انسانوں کا شکار اور پھر طالب علم کے لئے آنے والے طلبہ کا شکار تو اس سے بھی آسان ہے شیطان اس منظر نامے کو کیسے نظر انداز کر سکتا ہے کہ جس دن تم داخل ہو رہے تھے اس دن فرشتوں نے آپ کا استقبال کیا اور جس حصہ زمین پر تم قدم رکھ رہے تھے ازراہ احترام تمہارے لئے زمین پر اپنے پر بچھا رہے تھے ایسا نہ ہو کہ طالب علم دین کے مبارک پائوں کو تکلیف نہ پہنچے کوئی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے یاد رکھو اس دن سے شیطانوں کے منظم دستے تمہیں گمراہ کرنے کے لئے تمہارے ساتھ لگ گئے ہیں اور جو شکاری طبقہ طلبہ علم دین کو گمراہ کرنے کے لئے لگ گیا ہے تو تربیت یافتہ شیطانوں کے مشورے ، رہنمائی اور حوصلہ افزائی ان کے ساتھ ساتھ رہتی ہے ۔ ہاروت بابا ؒ اور دارالعلوم حقانیہ کے باقی تمام معلمین کرام فرمایا کرتے تھے کہ جن طلبہ نے دارالعلوم کے نظم و ضبط کا خیال رکھا ، اپنے اساتذہ کا کہا مانا اور ان کی حکمتوں ، نصیحتوں اور مشوروں کے مطابق عمل کی تو شیطان زندگی کے کسی بھی موڑ پر گمراہ نہیں کر سکتے ۱۹۷۹ء میں تیسرے درجے کا طالب علم تھا اور اب میں مولانا عبدالحق صاحبؒ کے گائوں والی مسجد سے دارالعلوم کے ہاسٹل منتقل ہوا تھا ۔ مجھے الحق کے پرانے دفتر کے نیچے پانی کی ٹینکی کے نیچے والا الگ کمرہ ایک سیٹر ملا یہ کمرہ قابل سکونت نہیں تھا چھتوں سے پانی گر رہا تھا میں ڈسٹمبر کر کے چار پائی اور کارپٹ کا انتظام کیا اور یوں کمرہ سیٹ کر دیا اس کو دیکھ کر اس زمانے کے بڑے بڑے صاحبزادوں اور امیر زادوں نے مجھ سے یہ کمرہ چھیننے کی کوشش کی مگر میں چونکہ حضرت شیخ الحدیث ؒ کے مریدین خاص میں سے تھا بلکہ تابع دا روں اور فرمانبرداروںکی فہرست میںشامل تھا لہذا دلاوروں ، نثاروں ، حامدوں اور شامیوں کے ٹولے نے مجھ سے یہ کمرہ چھیننا چاہا لیکن مجھ سے نہ چھین سکا دوران قیام مسجد حضرت مولانا عبدالحق ؒ میں حضرت کے ساتھ بیعت کر چکا تھا حضرت مولانا صاحب مجھے بچہ کہہ کربلاتے تھے باقی سب کو نام سے پکارتے تھے مثلاً عبدالقیوم حقانی صاحب کو عبدالقیوم مولانا قاری عمر علی صاحب کو عمر علی وغیرہ نام سے پکارتے تھے مگر مجھے ہمیشہ بچے ایسا کرو بچے یہ کرو وہ کرو آرام کرو وغیرہ وغیرہ ،معاصرین طلبہ یہ صورت حال دیکھ کر مجھ سے باتیں کرنا بند کر دی تھیں بلکہ بلوچی طلبہ نے تو قیام دارالعلوم کے دوران مجھے جان سے مارنے کی دھمکی دے