ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
کانوں کو یقین نہیں آیا تو ایک ساتھی نے موبائل میں مائک /ہینڈفری لگاکر میرے کانوں میں رکھا اور آخر مکرر، سہ کررسننے سے چونک اٹھا کہ ؎ دل میں غم کے جو ہنگامے او رشور شرابے برپا ہوئے، وہ فانی صاحب ؒ کے اس شعر کے مصداق تھے ؎ آھونہ مے د زڑھٔ سوے لمبے را پارَوی فریاد مے د بلبلو ترانے را پارَوی نور نشۃ دے گوگل کہ مے طاقت یارھ د غم ھر غم دِ دَ دردونو سلسلے را پارَوی سوچا کہ یہ غم اکیلے برداشت کرنا مشکل ہے ۔ چلو!یا ر کا آخری حق بھی ہے کہ اُس کے جنازہ کو پہنچ جاؤں۔ ایک شعر ہے ؎ عزرائلہ ! روح مے واخلہ خو د سترگو نظر نہ کیدے شی پس د مرگہ مِ آشنا دیدن لہ راشی اور جنازے میں میرے جیسے غمزدہ بہت ہونگے ،تو غم کو شریک کریں گے ؎ رفیقوں! ساتھیوں! آؤ سناؤ قصّۂ غم سب کہاں رخصت کیا فانی کو ؟ وہ روٹھے ہوتے تھے کب؟ وہ کونسا شکوہ گلہ تھا کہ وہ راضی نہ ہوتے تھے؟ چھپا کے چہرہ یاروں سے، ہوئے رخصت وہ بَستہ لَب کیا وہ محمودؔ زکی کی نہ سنتا تھا کوئی منّت نہ وہ عرفانِؔ و برھانؔ کی کوئی فریاد سنتے اب یہ حقّانیہ اُس کی مادرِ علمی بھی ہے تو کیوں؟ خفا ہوکر گیا اُس سے ہمیشہ کیلئے یارب کرے گا مجھ سے کوئی بات یا ہوگا خفا مجھ سے؟ ہوں میں فضلِؔ عظیم حیران کیا آفت پڑی بے ڈھب بہرحال! میں بیماری ہی میں فوراً مولانا فضل ربانی صاحب کے ساتھ روانہ ہوا ۔ میری طبیعت راستے میں بہت بگڑ گئی ، لیکن میں نہ جان سے خبر نہ جہاں سے خبر، نہ خوردونوش سے واقف اور نہ آرام وہوش سے واقف، بس ایک ہائے زور میں تھا کہ ہم زروبئی کو جنازے کے لئے پہنچ جائے ،اور فانی