ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
ہیں … ؎ یہ فتح مبیں فتحِ کابل مبارک بفضلِ مبیں فتحِ کابل مبارک زباں ہے یوں مشغول حمد خداوند بسجدہ جبیں فتحِ کابل مبارک جہاد مقدس کی تکمیل ہوگی مرے ہم نشین فتحِ کابل مبارک خدا نے رکھی لاج نام عمر کی امیر اَمیں فتحِ کابل مبارک ذلیل اور خائب ہوئے سارے دشمن کھلا بابِ دین فتح کابل مبارک ہے فانی عاجز کا ادنیٰ سا تحفہ بقلب حزیں فتح کابل مبارک غنی خیل کے لئے روانگی: طورخم پھاٹک کے طالبان کا اصرار تھا کہ ہمارا ان کے ہاں زیادہ سے زیادہ قیام ہو مگر مولانا شمس الرحمان حقانی اور ان کے رفقاء نے کہا کہ ہم نے غنی خیل اولسوالی میں پہلے سے استقبالیہ کا پروگرام ترتیب دیا ہے ۔ اور ظہرانے کا اہتمام بھی کیا ہے ۔ اس دوران وائرلس کے ذریعہ غنی خیل سے مہمانوں کے انتظار اور یہاں سے انہیں جلد رخصت کرنے کے تاکیدی پیغامات بھی مل رہے تھے ۔ جب غنی خیل کے لئے روانگی ہوئی اور دفتر سے نکل کر گاڑیوں کی طرف آنے لگے تو جامعہ حقانیہ کے قدیم فاضل اور معروف استاذ فقہ وحدیث اخونزادہ نعیم الدین حقانی نے میرا ہاتھ پکڑ کر سامنے کی پہاڑیوں کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ یہ شمشاد (غونڈ) پہاڑیاںکہلاتی ہیں ان تمام پہاڑوں میں طالبان پھیلے ہوئے اور مورچہ بند ہیں ان پہاڑوں پر چڑھنے کی مسافت میں چار گھنٹے صرف ہوتے ہیں۔ تخیل کی بلند پروازیاں: طالبان کے ساتھ معیت کے یہ لمحات رحمت ہی رحمت تھے ۔ ادھر طویل مدت بسیار دعاؤں ‘ اور شدید انتظار کے بعد باران رحمت کی بوندا باندی بھی شروع ہو گئی ۔ طالبان نے اس کو ہم گنہگاروں کی آمد کے حوالے سے نیک فال خیال کیا ۔فانی صاحب نے کہا … ؎ اب کے پھر برسات میں گنجِ شہیداں پر چلیں آسماں روئے گا اور اپنی غزل گائیں گے ہم ایک عظیم تاریخی یادگار دن: اب چاروں طرف باران رحمت کی گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں ۔ فضاء میں خشکی بھی تھی اوررحمت بھی اور نور بھی ۔ ہم اپنے تخیلات کی دنیا میں مست تھے کبھی بدرواحد کا خیال آتا ، کبھی حنین وتبوک کا تصور، کبھی اصحاب خندق کی قربانی رلاتی کبھی قادسیہ ویرموک کی داستانیں سامنے آتیں ، کبھی شاملی اور تھانہ بھون کا منظر ہوتا ،کبھی