طرف پوری طرح متوجہ ہونے کی تقریب پیدا کر دی۔ چند ہی دن میں قیام گاہ کا ایک کمرہ قادیانی لٹریچر کا کتاب خانہ اور دارالتصنیف بن گیا اور پوری یکسوئی اور انہماک کے ساتھ یہ کام شروع ہوا۔ ایک مہینہ اس علمی وتصنیفی اعتکاف میں اس طرح گزرا کہ گویا دنیا کی خبر نہ تھی اور سوائے اس موضوع کے کوئی دوسرا موضوع فکر نہ تھا۔
مصنف کا ذہن چونکہ فطرۃً تاریخی واقع ہوا ہے اور وہ اس شہر میں بالکل نووارد تھا۔ اس لئے اس نے اپنا سفر تحریک کے آغاز سے شروع کیا اور اس کے نشوونما اور ارتقاء کی ایک ایک منزل اور ایک ایک مرحلہ کا جائزہ لیتا ہوا چلا۔ گویا اس کے مشاہدات اور معلومات تحریک کے طبعی نشوونما کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ اس طرز مطالعہ نے تحریک کی فطرت ومزاج اور اس کے تدریجی ارتقاء اور اس کے مضمرات کے سمجھنے میں بڑی مدد دی اور بعض ایسے حقائق کا انکشاف کیا جو اس تحریک کو ایک شکل میں دیکھنے سے ظاہر نہیں ہوسکتے۔ مصنف نے مرزاغلام احمد قادیانی کی تصنیفات کا براہ راست مطالعہ کیا اور انہیں کے ذریعہ ان کی دعوت وتحریک اور نظام کو سمجھنے اور ایک غیرجانبدار مؤرخ اور طالب حق کی طرح آزادانہ رائے قائم کرنے کی کوشش کی۔ اس مطالعہ وجستجو کا نتیجہ وہ عربی کتاب تھی جو ’’القادیانی والقادیانیۃ‘‘ (مرزاغلام احمد قادیانی اور ان کی تحریک قادیانیت) کے نام سے شائع ہوچکی ہے۔
اس کتاب کے تیار ہو جانے کے بعد حضرت مولانا عبدالقادر صاحب مدظلہ کا حکم ہوا کہ اس کا اردو میں ترجمہ بھی کر دیا جائے۔ چونکہ اس ترجمہ میں اصل عبارتوں کو نقل کرنا تھا۔ اس لئے دوبارہ اس پورے کتب خانہ کی ضرورت پیش آئی جو لاہور میں فراہم کیاگیا تھا۔ مناسب سمجھا گیا کہ اس کام کی تکمیل بھی لاہور میں ہو۔ چنانچہ دوبارہ لاہور کا سفر کیاگیا اور الحمدﷲ کہ یہ عربی کتاب اردو میں منتقل ہوگئی۔ اس کتاب کو ترجمہ کہنے کے بجائے اس موضوع پر مستقل تصنیف کہنا زیادہ صحیح ہوگا۔ عبارتیں (جن کا کتاب میں حوالہ دیاگیا ہے) پوری احتیاط کے ساتھ اپنے صحیح مآخذ سے نقل کی گئی ہیں۔ عربی کے مقابلہ میں کچھ قیمتی اضافے اور بعض مفید ترمیمیں بھی کی گئی ہیں۔
مناظرانہ ومتکلمانہ مباحث کی ہندوستان کے دور آخر میں ایک خاص زبان اور خاص اسلوب تحریر بن گیا ہے۔ جس کی پابندی ضروری سمجھی جاتی ہے۔ مصنف نے اس کی پابندی ضروری نہیں سمجھی۔ اس کتاب میں مناظرانہ جوش کے بجائے مؤرخانہ متانت زیادہ ملے گی اور جو لوگ مناظرانہ وفریقانہ کتابوں کے ایک خاص طرز اور لہجہ کے عادی ہیں۔ شاید ان کو اس کتاب کو پڑھ کر مایوسی اور شکایت ہو۔ لیکن مصنف اس کے لئے معذرت کی ضرورت نہیں سمجھتا۔ اس نے یہ کتاب