عزیزی! السلام علیکم! آپ نے اخبار کا جو پرچہ بھیجا ہے۔ میں نے دیکھا۔ جن صاحب نے میرے خطوط شائع کئے ہیں۔ اگر وہ ان کے ساتھ اپنے خطوط بھی شائع کر دیتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔ اس طرح جواب کی نوعیت پوری طرح واضح ہو جاتی۔ جس عبارت کی نسبت آپ دریافت کرتے ہیں وہ دراصل ان کے ایک خاص سوال کے جواب میں لکھی گئی ہے۔ انہوں نے لکھا تھا کہ احمدی جماعت کے مبلغ کہتے ہیں۔ ہمیں حضرت مسیح علیہ السلام کے دوبارہ ظہور پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے اور دین کی تکمیل انہی کے ہاتھوں ظہور میں آئے گی۔ میں نے جواب میں لکھا کہ یہ صحیح نہیں اگر کسی زمانہ میں مسلمانوں کے لئے یہ بات ضروری ہونے والی تھی کہ کسی نئے ظہور پر ایمان لائیں اور دو شہادتوں پر ایک تیسری شہادت کا اضافہ ہو جائے تو ضروری تھا کہ اس کا انہیں صاف صاف حکم دیاجاتا۔
لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا کوئی حکم نہیں دیا گیا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ اب تکمیل دین کے لئے نہ کسی بروزی مسیح کی ضرورت ہے نہ حقیقی مسیح کی، قرآن آچکا اور دین کا معاملہ کامل ہوچکا۔ پس اس عبارت کا مطلب یہ ہوا کہ روایات میں جس نزول مسیح کی خبر دی گئی ہے۔ اس کا تعلق قیامت کے آثار ومقدمات سے ہے۔ دین کی تکمیل سے نہیں ہے کہ حضرت مسیح بحیثیت ایک نبی کے نازل ہوں گے اور ہر مسلمان کے لئے ضروری ہوگا کہ نبوت کے ایک نئے ظہور پر ایمان لائے۔
یہ مطلب نہیں ہے کہ بسلسلہ آثار قیامت نزول مسیح کی جو خبر دی گئی ہے۔ اس کی نفی کی جائے۔ چنانچہ عبارت مسئولہ عنہا کا بغور مطالعہ کیجئے۔ سارا زور تکمیل دین اور شرائط ایمان ونجات کے معاملہ پر پڑ رہا ہے۔
اور جو کچھ نفی کی گئی ہے۔ اسی کی کی گئی ہے۔ عبارت کے الفاظ یہ ہیں۔ ’’اگر کسی زمانہ میں مسلمانوں کی نجات وسعادت اس پر موقوف رہنے والی تھی۔ تو ضروری تھا کہ قرآن صاف صاف سے بیان کر دیتا۔ اس طرح صاف صاف جس طرح تمام مہمات اعتقاد یہ کر دی ہیں۔‘‘
یعنی نزول مسیح کی خبر محض آثار قیامت کے سلسلہ میں دی گئی ہے۔ مسلمانوں کی نجات وسعادت کے معاملہ کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر ہوتا تو اس کا ہمیں حکم دیا جاتا۔ پس اب تکمیل دین کے لئے نہ تو کوئی بروزی مسیح آنے والا ہے نہ حقیقی۔ ابوالکلام!