عرض ناشر
M
الحمد ﷲ وحدہ والصلوٰۃ علیٰ من لا نبی بعدہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وعلیٰ من اوفی بعدہ عہدہ۰ اما بعد!
انگریزوں نے اپنے زمانہ اقتدار میں غیرمنقسم ہندوستان میں اپنے قدم جمانے کے لئے جو بہت سی تدبیریں کیں۔ ان میں سے ایک یہ تدبیر بھی تھی کہ انہوں نے ایک شخص سے نبوت کا دعویٰ اور جہاد کی منسوخی کا اعلان کرادیا۔ انگریزوں کو چونکہ مسلمانوں ہی سے خطرہ تھا کہ مسلمان جوش جہاد میں اٹھ کھڑے ہوں اور اپنے ملک واپس لے لیں۔ اس لئے جہاد کی منسوخی کا اعلان کرانا ضروری تھا۔ تیرہ سو سال سے مسلمان ختم نبوت کے عقیدہ کو مانتے آرہے تھے۔ انہوں نے جب جھوٹی نبوت کا اعلان سنا تو اس کی مخالفت اور مدافعت میں کھڑے ہوگئے۔ جن حضرات اکابر نے اس سلسلہ میں خوب بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ان میں شیخ المحدثین حضرت مولانا انور شاہ صاحب کشمیریؒ اور ان کے تلامذہ جن میں احقر کے والد ماجد مفتی اعظم ہندو پاک حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندیؒ بھی تھے۔ حضرت موصوف نے ردقادیانیت پر عربی اور اردو میں کتابیں تالیف فرمائیں۔ پھر تقریباً پندرہ سال پہلے جب یہ معلوم ہوا کہ سعودی عرب میں ملازمتوں کے عنوان سے کچھ قادیانی داخل ہوگئے ہیں۔ جناب مولانا محمد عاشق الٰہی صاحب بلند شہریؒ سے عربی میں ایک مختصر سا رسالہ بنام القادیانیہ ماھی؟ تالیف کرایا جو عربی ممالک میں کثیر تعداد میں بھیجا گیا۔ حال ہی میں مولانا موصوف نے ایک رسالہ اردو میں تالیف فرمایا ہے۔ جو مختصر اور جامع ہے اور قادیانیوں کی نقاب کشائی کے لئے بالکل کافی اور وافی ہے۔ جن دوستوں کا قادیانیوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ ان سے درخواست ہے کہ جو نکات اس رسالہ میں درج کئے گئے ہیں۔ ان کو قادیانیوں کے سامنے رکھیں اور ان کو غور وفکر کی دعوت دیں۔ حدیث شریف میں ہے۔ ’’لان یہدی اﷲ بک رجل خیرلک من حبرالنعم۰ وما توفیقی الا باﷲ علیہ توکلت والیہ انیب‘‘ احقر: محمد رضی عثمانی ناظم دارالاشاعت کراچی نمبر۱