زور دینا چاہئے تھا۔ اس واسطے کہ انبیاء سابقین پر ایمان مجمل کفایت کرتا ہے۔ برخلاف نبی لاحق کے اس کے متعلق ایمان کا معاملہ ابھی درپیش ہے۔ قرآن عملیات میں فروعات مثلاً غسل جنابت اور تیمم کی تعلیم تک کو بڑی شدومد سے بیان کرے اور ایمانیات میں جو چیز عمل کی موقوف علیہ ہو اور ایمان کی زنجیر کی ایک اہم اور ضروری کڑی کو بیان نہ کرے۔ یہ قرآن کے ہادی اور رحمتہ اور تفصیل کل شیٔ اور تبیان کل شیٔ کے سراسر منافی ہے اور قرآن کے طریقہ تعلیم اور ارشاد کے خلاف ہے۔ قرآن جو بیان امثلہ میں مچھر اور مکھی تک بیان کرنے میں کسی کافر مشرک سے نہ جھجکا اس کو کسی کاڈر اور خوف تھا کہ ایک نبی بعد بھی آنے والا ہے۔ مقام بیان سکوت باوجود طاقت اور قدرت کے بڑا نقص اور سخت عیب ہے۔
’’کما قال ولم ارنی عیوب الناس مرّ کنقص القادرین علی التمام‘‘ یہ رب الرحمن والرحیم کی رحمت کے بالکل خلاف اس کا عکس ہے کہ قادیان میں نبی آنا تھا اور قران نے محمد رسول اﷲﷺ کو خاتم النبیین کہہ کر مخلوق کو چودہ صدیوں تک دھوکہ میں رکھا اور نبی بھی وہ جس میں تمام کمالات انبیاء ایک ایک کر کے بھر دئیے گئے ہوں۔ نعوذ باﷲ من ذالک الخرفات والہنذیان!
(حقیقت الوحی ص۹۷ حاشیہ، خزائن ج۲۲ ص۱۰۰) میں لکھا ہے کہ خاتم النبیین کا معنی نبی تراش ہے۔ لاحول ولا قوۃ الا باﷲ خاتم کا لغتہً جیسا کہ قرأت مشہور لفظ مہر کو کہتے ہیں۔ خاتم النبیین کا معنی نبی تراش آیت تحریف کی یہودیانہ ہے۔ عوام جہال کو گمراہ کرنے اور فریب دینے کے واسطے انہوں نے تراشے ہیں۔ منجملہ ان کے یہ ہے کہ وہ نبی کیا ہوا جو نبی تراش نہ ہو وہ نبی کیا ہے جو نبی گر اور نبی ساز نہ ہو۔ ہمارا نبیﷺ چونکہ تمام انبیاء کے سردار ہیں۔ اس واسطے وہ نبی ساز ہیں۔ یہ اسی طرح بکواس ہے۔ جیسا کوئی کہے کہ قرآن تمام کتب سے افضل ہے اور اس کے مقابل ایک جاہل کہہ دے وہ قرآن کیسا ہے جو قرآن گر اور قرآن ساز نہ ہو۔ وہ اسلام کیا ہے جو اسلام گر نہ ہو۔ وہ مذہب کیا ہے جو مذہب تراش نہ ہو۔ لاحول ولا قوۃ الا باﷲ العظیم! خدا تعالیٰ اپنے غضب سے بچائے۔
اب آیت مذکورۃ الصدر کو غور سے دیکھئے۔ اس میں حضورﷺ کے متعلق بالغ مردوں کے باپ ہونے کی نفی کی گئی ہے اور حضورﷺ کے رسول اﷲ ہونے اور خاتم النبیین ہونے کا اثبات فرمایا گیا ہے اور یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ رسول اور نبی میں تبائن کی نسبت نہیں