ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
ان کو حفظ یاد تھے حالانکہ ایک دفعہ پڑھنے سے کیا تمام کتاب یاد ہو سکتی ہے ۔ اصل یہی ہے کہ حق تعالی کی طرف سے تائید ہوتی ہے ۔ افادہ کے وقت پھر اس کو طالب کی برکت کیسے نہ کہا جائے ۔ میں نے سہارن پور میں بیان کیا تھا کہ بیان کو واعظ اپنا کمال نہیں کہہ سکتا کیونکہ پستان میں دودھ جب ہی پیدا ہوتا ہے جب بچہ ہوتو دودھ پستان کا کمال نہیں بلکہ بچہ کا کمال کہنا چاہئے لیکن اس میں غرور نہ ہو جائے کہ ہم بڑے باکمال ہیں کیونکہ بچہ بھی دودھ پستان میں سے جب نکال سکتا ہے جب کہ اس میں دودھ ہو بھی تو بھلا خشک لکڑی میں سے تو کھینچ لے ۔ بس حق تعالی نے امت محمدیہ کو سب کو ایک کو دوسرے کے واسطے ممد ومعاون بنایا ہے کوئی ایک دوسرے پر فخر نہیں کر سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے حضرات اپنے آپ کو بڑا نہیں سمجھتے ہیں ۔ مولانا گنگوہی کوئی مضمون لکھتے تو اپنے چھوٹوں کو سناتے اور فرماتے بہ نظر تنقید دیکھو اور غلطی ہوتو مطلع کرو ۔ اسی طرح حضرت حاجی صاحب فرماتے کہ میں ناخاندہ ہوں کہ تم میری غلطی بتلادینا ۔ ورنہ قیامت میں کہہ دوں گا کہ میں نے ان لوگوں سے کہہ دیا تھا انہوں نے تصحیح نہیں کی ۔ خلوص یہ ہے کہ یہ صحابہ کی صفت تھی ۔ کہاں ہیں وہ لوگ ہم لوگ کس منہ سے ان کی ریس کر سکتے ہیں ۔ مگر خیر ہم نے بھی ان بزرگوں کی نقل ہی کی ہے میں نے ایک سلسلہ جاری کیا ہے اس کا سالانہ ایک رسالہ بن جاتا ہے ترجیح الراجح اس کا نام رکھ دیا ہے ۔ سال بھر تک جس بات میں اپنی رائے کی غلطی ثابت ہوتی ہے اس کو اس میں لکھ دیتا ہوں یہ نفس کا خوب علاج ہے کہ سال بھر تک اغلاط کی تلاش رہتی ہے خود اپنی نظر ان کی جانب جائے یا کوئی اور بتادے تاکہ رسالہ پورا ۔ میں تو غلطی بتانے سے بڑا ممنون ہوتا ہوں کہ ایک بات ہم کو بڑی مشقت سے معلوم ہوتی ہے اس نے بے محنت بتادی ۔ الحمد للہ کہ ایسے لوگوں کے منہ تو ہم نے دیکھے ہیں جو بے نفس تھے اسی کی برکت ہے کہ قلب کو کسی نے غلطی بتانے سے ناگواری نہیں ہوتی ۔ علم ایک دریائے ناپید کنارا ہے یہ کیا ضرور ہے کہ سب کا احاطہ ہو اور نہ ہر وقت طبیعت حاضر ہوتی ہے ذہول بھی ہو سکتا ہے ۔ بے سمجھے نہ پڑھانا ایک دفعہ میں جلالین پڑھانے بیٹھا خطبہ ہی کی عبارت ایک جگہ سمجھ نہ آئی ۔ احاطہ معلومات تو حق تعالی ہی کے ساتھ خاص ہے یہ بھی جہل ہے کہ ہم کو اپنے جہل کا علم نہ ہو ۔