ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
|
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے خود حضور ﷺ نے اپنا نام مبارک مٹانے کے لئے فرمایا ۔ یہ امر وجوب تھا مگر حضرت علی رضی اللہ اس کی تعمیل نہ کر سکے اور عرض کیا حضور مجھ سے نہ نہیں ہو سکتا ۔ لہذا دل نہیں گوارا کرتا کہ قرآن شریف نیچے رکھا جائے بیگ میں سے نکال کر بغل میں لے لو ۔ حضرت والا خدام بجانب بڑھل گنج روانہ ہوئے ۔ بڑھل گنج کے قریب پہنچے تو قرآن شریف کی کچھ منزل باقی رہ گئی تھی فرمایا ابھی قصبہ میں نہیں جاتے شمال کی طرف ایک سٹرک تھی ۔ اس پر تھوڑی دور چل کر دوسری طرف سے قصبہ میں داخل ہوں گے ۔ دو چار آدمی قصبہ کے مل گئے اور ہمراہ ہو لئے آگے چل کر دیکھا کہ راستوں پر بہت سے آدمی منتظر ہیں وہ بھی ساتھ ہو لئے اس وقت چھوٹا سا اچھا مجمع ہو گیا ۔ تعظیم میں غلو نہ چاہئے دو آدمیوں نے داہنے بائیں حضرت سے ذرا آگے چلنا شروع کیا کہ لوگوں کو ہٹادیں ایک جگہ بھگن سڑک پر جھاڑو دے رہی تھی ان آدمیوں نے اس کو ذرا ڈانٹا ہٹ جا راستہ چھوڑ دے تو حضرت ناراض ہوئے اور فرمایا تعظیم میں یہ غلو ہے اس کو دل گوارا نہیں کرتا کہ امتیاز کی شان ہو ۔ راستہ کسی کی ملک کی نہیں ۔ اور پکار کر فرمایا سن لو یہ مسئلہ ہے کہ راستہ پر کسی کی حکومت جائز نہیں راستہ کسی کی ملک نہیں یہ تو ظالموں کی شان ہے کہ راستے ان کے لئے بند کئے جائیں کہ جب ہم نکلیں سب معطل ہو جائیں مسلمانوں کا کام یہ نہیں پھر بڑھل گنج کی مسجد میں پہنچ کر فرمایا بدعات جیسے کہ عقائد میں ہوتی ہیں اسی طرح اعمال میں بھی ہوتی ہیں ۔ راستہ سے لوگوں کو ہٹانا بدعت ہے اس سے بچنا چاہئے خواص کو بھی اس طرف توجہ نہیں اکرام وہیں تک جائز ہے جب کہ دوسروں کا اضرار نہ ہو ۔ ایک بڑھیا حضرت والا کے پاس آئی اور زار زار رونے لگی اور بے حد عقیدت ظاہر کی ۔ اور ڈھائی آنے پیسے نذر کئے ۔ حضرت نے بہت خوشی سے قبول فرمالئے وہ عورت برابر مسجد تک روتی ہوئی ساتھ رہی ۔ بعض ازاں جب کھانے سے فراغت پاکر روانہ ہوئے تب بھی وہ روتی ہوئی ساتھ تھی حتی کی جب قصبہ سے باہر ہو گئے تب وہ بمشکل رخصت ہوئی ۔ مسجد میں پہنچ کر فرمایا قرآن شریف جاء نمازوں پر رکھ دو تاکہ گلا خالی ہو ۔