ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
دو محقق کی رائے مل نہیں سکتی دو محقق جو انتہا درجہ کےمحقق ہوں بہت کم ایک بات پر متفق ہوسکتے ہیں ۔ یہ بات ظاہرا بعید سی معلوم ہوتی ہوگی ۔ لیکن بالکل صحیح ہے اور یہ کچھ دین ہی پر موقوف نہیں ۔ دنیا کی باتوں میں بھی دیکھ لیجئے ۔ کسی فن کو اٹھا کر دیکھئے دو محقق کی رائےکبھی موافق نہ ہوگی ۔ طبی مسائل میں جالینوس کی تحقیق اور ہے اور شیخ کی اور ہے اور بقراط کی اور ہے یہ اختلاف کیوں ہے ظاہر ہےکہ یہ سب ائمہ فن تھے اوران کو طب کی ترقی کی کوشش تھی طب کے ساتھ ان کو عداوت نہ تھی پھر ان کے کیا معنی انصاف کی نظر دیکھاجائے تو یہ اختلاف اسی اصول پر مبنی ہے کہ دو محقق کی رائے متفق نہیں ہوتی ۔ محققین کی شان یہی ہوتی ہے کہ حقیقت کو سمجھنا چاہتا ہے ۔ اور حقیقت کے بہت سے پہلو ہوتے ہیں اور احاطہ سب پہلوؤں کا ۔ محقق بد تہذیب نہیں ہوتا یہ خدا کاکام ہے تو ایک ایک پہلو پر نظر جاتی ہے اس لئے ایک دوسرے سے اتفاق نہیں کرتا ۔ وسیع النظر اتنا ہوتاہے کہ دوسرے محقق کی نسبت کوئی برالفظ بھی کہنا پسند نہیں کرتا ائمہ ومجتہدین کا اختلاف بھی اسی قسم کا ہے کہ آپس میں اختلاف ہے کہ ایک صاحب ایک چیزفرض کہتے ہیں اور دوسرے اسی کو حرام کہتے ہیں۔ یہ کتنا بڑا اختلاف ہے مگر ساتھ ہی اس کے یہ حالت بھی انہیں کی ہے کہ امام شافعی کا ادب امام ابو حنیفہ کے ساتھ مشہور ہے دیکھئے اتنا اختلاف اور اتنا اتحاد اس اختلاف کی وجہ سوائے غائت درجہ کے محقق ہونے کے کچھ نہیں ہے۔ محقق فضول منازعت سے بچا کرتا ہے ۔ اور جاہل سےہارجاتا ہے اور محقق ہمیشہ وسیع النظر ہوتا ہے ۔ اور ایک شان محقق کی یہ ہوتی ہے کہ فضول مباحثہ سےبچتا ہے اور غیر محقق اور غبی سے گفتگو نہیں کرتا بلکہ اگر غبی سے گفتگو ہو تو ذرا میں خاموش ہوجاتاہے جس کو عوام ہارجانا سمجھتےہیں اس کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ اس کے پاس دلیل نہیں ہے اوریہ کہ وہ واقع میں ہار گیا ۔ بلکہ وجہ یہ ہوتی ہے کہ نا حقیقت شناس کو سمجھا نا مشکل سمجھتا ہے اور ہار مان جانے کو سہل سمجھتا ہے اس کی مثال یہ ہے کہ ایک سوانکھا شخص آفتاب کو دیکھ رہا ہے ۔ اور ایک مادرزاد اندھا آفتاب کا انکار کررہاہے اگر وہ اندھا اس سوانکھے سے الجھے کہ آفتاب کے طلوع کا کوئی ثبوت لاؤ تو وہ کیا ثبوت دے سکتا ہے اس کو یہ کہنا سہل