ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
بھی ہو گئے ۔ معمولات سفر کا نام ( معمولات سفر حصہ دوم معمولات اشرفی ) ہو اور کیفیات نماز کا نام (صلوۃ السفر ) رکھا گیا اور علوم غیر نقولہ کا نام ( فرائد الفوائد ) رکھا گیا ۔ 16 صفر 1335 ھ روز بدھ احقر مراد آباد میں 5 بجے شام کے اسٹیشن پر آکر حضرت والا سے مل گیا اور پچیس تیس آدمی مراد کے حضرت والا کی زیارت کیلئے موجود تھے حالانکہ کسی کو حضرت والا نے اطلاع نہ کی تھی ۔ حضرت کے ساتھ رفیق سفر صرف مولوی محمد یوسف صاحب مدراسی داماد مفتی لطف اللہ صاحب رام پوری تھے جو تمام سفر میں ساتھ رہے ان کو لوگ مفتی صاحب کہتے تھے اور مراد آباد سے دو ایک طالب علم اور بھی ہمراہ ہو گئے تھے جو متفرق مقامات پر علیحدہ ہو گئے ۔ 17 صفر 1335 ھ شب پنجشنبہ مغرب کی نماز مراد آباد سے ریل گذر جانے کے بعد ریل ہی میں پڑھی ۔ دونوں بنچوں کے درمیان میں حضرت والا کھڑے ہوئے اور دونوں طرف بنچوں پر بندہ اور مفتی صاحب کھڑے ہوئے اس طرح جماعت کی قبلہ کا رخ سیدھا نہ تھا 8/ 1 دائرہ سے کم منحرف تھا اس کا لحاظ نہ کیا گیا ۔ اور پیچھے حضرت والا کے اور بائیں پر ایک آدمی اور بھی تھا ۔ بنچوں پر کھڑے ہونے والوں کے سر بوجہ اوپر کے تختوں کے پورے نہ اٹھ سکتے تھے سر بالکل جھکائے ہوئے بلکہ قدرے پشت بھی جھکا کر قیام کیا ۔ اور حضرت نے نماز میں معوذ تین پڑھیں اور اوابین نہیں پڑھی ۔ حالانکہ ریل میں چنداں تنگی نہ تھی ادنی ضیق مسافرین کا لحاظ فرمایا ۔ غیبت کی معافی کی صورت ایک شخص شریک جماعت تھے جو وضع سے مولوی اور مقتدا معلوم ہوتے تھے انہوں نے بعد فراغ از نماز مصافحہ کیا اور پوچھا کہ اگر کوئی کسی کی غیبت کرے تو معاف کرانے سے معاف ہو جاتی ہے یا نہیں فرمایا ہو جاتی ہے عرض کیا مبہم لفظ کہہ دینے سے یا غیبت کو سنا کر کہ یہ غیبت کی ہے ۔ فرمایا مبہم لفظ کافی ہے ۔ دوہرانے سے تو اور دو بارہ اذیت ہو گی ۔ عرض کیا تو میں آپ سے معافی چاہتا ہوں میں نے آپ کی ایک جلسہ میں غیبت کی تھی ۔ فرمایا میں روزہ مرہ حق تعالی سے عرض کرتا ہوں کہ میری وجہ سے کسی پر مواخذہ نہ کرنا میں نے اپنے سب حقوق معاف کر دیئے ( مسکرا کر فرمایا ) حقوق مالیہ کے سوا کبھی کوئی میرا