ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
بڑھل گنج میں خبر ہوگئی اور آدمیوں کا تار بندھ گیا ۔ خصوصا اس لنگڑے نے تو کوڑی پھیرا کر دیا جب تک حضرت کا قیام زہر پور میں رہا ذرا ذرا دیر میں آتا تھا ۔ ظہر کی نماز ڈیرہ میں پڑھی اذان نہیں کہی گئی ۔ ایک ملحد کا صرف تین روزے ماننا فرمایا آجکل ایسی خود رائی ہے کہ دین میں بھی جو جس کی سمجھ میں آتا ہے تراش خراش کرنے کو تیار ہے اور اس بیباکی کو دیکھئے کہ جو سمجھ میں آجائے اس میں کسی سے مشورہ بھی نہیں کرتے گویا جو ان کے دل میں آتا ہے وہ وحی قطعی ہوتی ہے ۔ ( نعوذ باللہ ) ایک شخص نے دعوی کیا ہے کہ روزے اسلام میں صرف تین ہیں اور ایسا خبط ہوا کہ اس کو اشتہار میں چھاپ دیا ہے ۔ دلیل یہ ہے کہ حق تعالی نے قرآ کریم میں کتب علیکم الصیام کے آگے فرمایا ہے ایاما معدودات اور القرآن یفسر بعضہ بعضا یہی لفظ دوسری جگہ بھی ہے وہاں جو مراد ہے وہی یہاں بھی لینا چاہئے دوسری جگہ یہ ہے واذکر اللہ فی ایام معدودات یہ حج کے بیان میں ہے ۔ اور اس سے مراد گیارہویں بارہویں اور تیرہویں تاریخ ہے ۔ تو روزہ بھی انہیں دن کا ہوا ۔ باقی مولویوں کی گھڑت ہے ۔ فرمایا حضرت نے نہ معلوم یہ شخص لن تمسنا النار الا ایاما معدودات ۔ میں کیا مراد لے گا ۔ شاید یہود کا یہ عقیدہ تھا کہ صرف گیارہویں بارہویں تیرہویں کو عذاب ہوا کرے گا ۔ سو یہ بالکل خلاف واقع ہے ۔ اپنے زعم میں دل خوش کر لیا اور سیاق وسباق سب کو بگاڑ دیا ۔ فمن شهد منكم الشهر فليصمه ۔ اور شهر رمضان الذي انزل فيه القرآن وغیرہ سب سے آنکھ میچ لی اور ان احمقوں کے یہاں حدیث کوئی چیز ہی نہیں قطع نظر حدیث کے ساتھ عقیدہ رکھنے کے تاریخ کے مرتبہ میں تو اس کو ماننا چاہیے اور اس کا قائل ہونا چاہئے کہ صحابہ نے اور جمہور امت نے تیس روزے رکھے کیا آج تک کسی نے بھی قرآن کے مدلول کو نہیں سمجا ۔ ان بیوقوفیوں اور خود رائیوں کا کوئی جواب کہاں تک دے لطف یہ ہے کہ کوئی کیسی ہی بدیہی البطلا بات کہے اس کے بھی متبع کچھ نہ کچھ لوگ ہو جاتے ہیں ۔ بلکہ حق کے متبع جلدی نہیں ہوتے اور باطل کے منہ سے نکلنے کی دیر ہے کہ متبع موجود ہیں ۔ لفظ واجب الوجود کا ثبوت فرمایا بیضاوی کے سبق میں ایک شخص نے کہا لفظ واجب الوجود کا اطلاق حق تعالی پر بدعت ہے ۔ کیونکہ اسماء الہی توفیقی ہیں مفتی صاحب نے عرض کیا اسماء توفیقی ہیں نہ صفات ۔ فرمایا واجب الوجود