ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
سے نکلنا بھی دشوار ہوا ۔ فرمایا دم تو آنے دو ہوا تو بند نہ کرو باہر آجاؤ ں تب مصافحہ کرنا بمشکل قیام گاہ کے کمرہ تک پہنچنے ذرا دم لے کر ظہر کی نماز کی تیاری ہوئی ۔ کمرہ میں سے نکلتے ہی مصافحہ کا پھر زور ہوا ۔ خیریت ہوئی کہ وضو کمرہ کے اندر ہی کر لیا تھا ۔ بمشکل مسجد کے اندر پہنچے نماز سے فارغ ہونے کے بعد ابھی وظیفہ ہی میں تھے کہ پھر مصافحوں کا پل ٹوٹا حضرت تنگ آ جاتے مگر ہاتھ نہ کھینچتے جب تنگ ہوتے تو نیچے کو سر کر کے وظیفہ میں مشغول ہو جاتے ۔ مگر مصافحہ کر نے والے کب مانتے تھے کپڑے پکڑ پکڑ کر کھینچتے ۔ حضرت فرماتے وظیفہ کی حالت میں مصافحہ نہ کروں گا ۔ تب ذرا کو امن ہوتا ۔ مشایخ زمان گرم بازاری کی کو شش کرتے ہیں غرض وہ طوفان بد تمیزی رہا کہ باعث کلفت تھا ۔ حضرت فرماتے کہ یہاں کا مصافحہ کیا ہے ایک بلا ہے اور یہ خرابی ہمارے ہی ابنائے جنس علماء کی ہے کہ آتے ہیں اور ازدیاد مجمع کی کوششیں کرتے ہیں ۔ وہ اس مصافحہ کو منع تو کیوں ہی کرنے لگے اس کے اور زیادہ ہونے کی کوششیں کرتے ہیں ۔ کیونکہ اس سے گرم بازاری ہوتی ہے ۔ اور نام اس کا تعظیم دین رکھا ہے پھر فرماتے مصافحہ کنندگان کی طرف سے تو اس کا منشاء محبت اور تعظیم وتکریم ہی ہے مگر کوئی حد بھی تو ہونا چاہئے ہر چیز کے لئے حد ہوتی ہے اور جس کی تعظیم کی جاتی ے اس کے لئے یہ ایک فتنہ ہے اور بالکل اس کو ہلاک کرنا ہے ۔ ظہر کی نماز کے بعد حضرت والا کو استنجے کی ضرورت ہوئی اس وقت مجمع کی یہ حالت تھی کہ تمام صحن بھرا ہوا تھا ۔ بیت الخلاء تک پہنچنا دشوار تھا ۔ ایک شخص حضرت کے آگے ہوا تا کہ لوگوں کو ہٹایا جائے اور لوگوں نے پھر مصافحہ شروع کر دیا ۔ حتی کہ بیت الخلاء کے دروازہ تک اس سے فرصت نہ دی ایک شخص نے کہا اب تو ذرا ٹھیر جاؤ استنجے کے لئے جارہے ہیں ۔ حضرت مسکر اکر فرماتے کیوں منع کرتے ہو آنے دو یہ تو میرے ساتھ پائخانہ کے اندر ہی جائیں گے ۔ مجھے استنجا کرتے دیکھیں گے ۔ آخر استنجے کی کیفیت بھی کسی طرح سیکھیں ۔ باہر نکلتے ہی پھر وہی دور مصافحہ کا شروع ہو گیا ۔ غرض ضلع اعظم گڈھ کا مصافحہ اس سفر کے عجائبات میں سے ہے ۔ سفر خرچ کس سے لیا جائے مولوی ابو الحسن صاحب نے عرض کیا کہ اسٹیشن کھرہٹ سے فتح پور جانا اہل فتح پور کی استدعا