ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
حکام کا ادب ضروری ہے معاملہ مع الحکام کا ذکر ہوا تو فرمایا حکام کا ادب میں ضروری سمجھتا ہوں ۔ تر ک ادب کام کی بات نہیں بلکہ اس میں شرارت نفس یعنی شیخی ہے کہ ہم ایسے ہیں حاکم سے بھے نہیں دبتے نہ دبنا کیا معنی جب اس کو خدا تعالی ہی نے حاکم بنایا ہے ۔ یوں نہ دبو گے تو دبائے جاؤ گے اور رعایا ہو کر نہ دبنے سے کیا کوئی عقلمند یہ کہہ دے گا کہ رعایا ہونے سے نکل گئے یا مخالف ہوں خصوصا علماء کے لئے کہ یہ ان کی وضع کے بالکل خلا ف علما ء کو تو گوشہ نشین ہونا چاہئے ۔ لیکن اگر ملنا ہو یا کوئی کام پڑ جائے تو ادب کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔ اور بے ادبی اور منہ زوری کی شرارت نفس سمجھتا ہوں ۔ بریلی کا ایک قصہ حکام سے ملنے نہ جانے میں تکبر ہے میں بریلی گیا تھا صاحب جنٹ علم دوست آدمی تھے انہوں نے سنا تھا کہ میں نے تفسیر لکھی ہے مجھ سے ملنے کا اشتیاق ظاہر کیا مجھ سے بھائی اکبر علی نے کہا ایسی بات ہے میں نے کہا ٹال دیجئے ہاں اگر نئی دفعہ کہیں اور اصرار کریں تو کیا مضائقہ ہے ۔ انہوں نے پھر اشتیاق ظا ہر کیا اور اس کے لئے بھی تیار تھے کہ مجھ سے خود آکر ملیں ۔ میں نے کہا میں خود ملوں گا ۔اگر چہ یہ خیال ہو سکتا تھا کہ ان کے آنے میں علی کی وقعت ہے ۔ مگر سمجھ میں آیا کہ یہ صرف نفس کی تاویل ہے اور اصل اس کی شہرت اور عجب ہے ۔ مہمانان کا اکرام اس کے مذاق کے مطابق ہونا چاہئے نیز خیال ہوا کہ اگر وہ آئیں گے تو وہ مہمان ہوں گے ۔ اور مہمان کا اکرا م اس کے مذاق کے مطابق ہونا چاہئے اور ان کے مذاق سے میں واقف نہیں تو سوائے اس کے مجھے خلجان ہو اور مہان کو بھی انبساط نہ ہو گا پھر ہم لوگ طالب علم ہیں ہماری کوئی شان نہیں ۔ جس کے خلاف ہونے سے تکلیف ہو ۔ چنانچہ میں اور بھائی اکبر علی گئے بنگلہ پر پہنچے معلوم ہوا کہ غسل کر رہے ہیں ۔ نماز کی پابندی نماز کا وقت ہو گیا ہم نے وہیں رومال بچھا کر نماز پڑھی اتنے میں وہ بھی غسل سے فارغ ہو گئے پھر کمرہ میں آئے اور بڑے اکرام سے پیش ائے ۔ خاص اپنی چوکی پر جو بڑے تکلف کی تھی مجھے