ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
ٹھیروں گا تم حافظ احمد صاحب کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھ آؤ کہ وہ آرام کر نے کے لئے میری مسجد میں جاتے ہیں انہون نے اجازت دیدی بس میں اسباب لے اور ان کے حجرہ میں جا ٹھیرا ۔ پھر حافظ احمد صاحب کو التواء عزم کی خبر ہو گئی خود آئے اور مجھے ہر چند سمجھایا مگر میں نے عذر کر دیا ۔ وہاں نواب کو خبر ہوئی کہ وہ نہیں آئے گا میں لوٹنے کو تیار ہو چکا تھا ۔ کہ نواب صاحب کا تار پہنچا کہ ضرور آئیں مگر الہ آباد چل دیا اور وہاں پہنچ کر میں نے جواب دیا کہ جب تار پہنچا تو میں تیار ہو چکا تھا ۔ لہذا مجبور رہا ۔ بلا ضرورت احسان نہ لے جب وطن پہنچا تو بعض ان لوگوں کے جو دینداروں میں سے نہیں بلکہ اہل دنیا ہی میں شمار کئے جاتے ہیں پھر خط آئے کہ آپ کا نہ جانا بڑا اچھا ہوا ۔ ہمیں یہ خبر سن کر کہ آپ جارہے ہیں بڑا قلق تھا بات یہ ہے کہ جب آدمی لاگ لپیٹ رکھے تب ہی اس کو لچنا پڑتا ہے اور جب لاگ لپیٹ نہ ہو تو پھر لچنے کی کیا ضرورت ہے ۔ چاہئے کہ بلا ضرورت آدمی کسی کا احسان نہ لے ورنہ دبنا ضرور پڑتا ہے ۔ ہمارے اکابر کا یہی اصول رہا ہے کہ بات صاف رکھتے چھوٹا ہو یا بڑا کسی کا احسان بلا وجہ نہ لیتے ۔ قصہ مولانا محمد قاسم صاحب ومناظرہ روڑ کی مولانا محمد قاسم صاحب روڑ کی دیا نند سے مناظرہ کے لئے گئے اور بھی چند آدمی ساتھ ہو گئے تھے سنا ہے کہ مولانا ایک جگہ ٹھیرے اور ساتھ والوں سے کہہ دیا کھانا بازار سے کھائیں ۔ مجسٹریٹ کو خبر پہنچی تو اول وہ سمجھا کہ یہی دعوت خورے آئے ہوں گے ۔ مگر جب واقعی بات کی خبر ہوئی کہ وہ اس طرح کے لوگ ہیں تو اس کے دل میں بڑی قدر ہوئی اور اس نے مولانا کو بلایا اور اشتیاق ظاہر کیا مولانا کی عادت تھی ۔ کہ کبھی بڑے آدمی سے نہ ملتے تھے قصہ مولانا محمد قاسم صاحب رام پور ایک دفعہ رام پور گئے نواب صاحب کو خبر ہوئی تو مولانا کو بلایا مگر مولانا نہیں گئے ۔ اور یہ حیلہ کیا کہ ہم دیہاتی لوگ ہیں ۔ آداب شاہی سے واقف نہیں خدا جانے کیا بے ادبی ہوجائے نواب صاحب نے کہا آپ کو آدب وغیرہ سب معاف ہیں ۔ آپ تشریف لائیے ہم کو آپ سے ملنے کا اشتیاق ہے مولانا نے جواب دیا کہ تعجب کی بات ہے ملنے کا اشتیاق تو آپ کو ہو اور آؤں میں غرض نہ گئے ۔ باوجود ایسی آزادی