ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
حس ہے اور کیا لطافت مزاج ہے یہ ذکر کی نورانیت ہے جو کوئی نیا آدمی اس قسم کی کوئی بات دیکھے تو کہہ سکتا ہے کہ بہت ہی تنگ مزاج ہیں لیکن تنگ مزاجی کی سنئے کہ ایک دعوت میں فرمایا کہ میں وہ کھانا کھاؤں گا جو سب کے آگے کا بچا ہوا ہو چنانچہ معمولی آدمیوں کے آگے کی بچی بچائی گھچولی بے تکلف کھا لی اس کو دیکھ کر کیسے کہا جاسکتا ہے کہ مولانا تنگ مزاج تھے وہ طبعی لطافت تھی اور یہ اختیاری تواضع ہے ۔ سبحان اللہ اہل اللہ کی کیا شان ہے آجکل بعض درویشوں کی یہ حالت ہے کہ لوگوں سے کہتے ہیں ہمارے پاس مت آؤ قلب کو ظلمت گھیرے لیتی ہے ۔ یہ ہے خودداری ، خود تو رائی بنتے ہیں اور دوسروں کو ظلمانی کہتے ہیں ۔ یہ کیا واہیات ہے ۔ نور تو وہ ہے ، کہ سارے جہاں کی ظلمتوں کو مٹادے نہ یہ کہ خود ہی مٹ جائے ۔ فرمایا وقعت ہونا دوسرے کی نظروں میں بری نہیں بلکہ محمود مطلوب ہے ، ہاں تکبر سخت خطرناک چیز ہے اور یہ بات بہت باریک ہے ۔ ؎ بحر تلخ وبحر شیریں ہمعناں ٭ برزخ بینھما لا یبغیاں جاہ اور تواضع جمع ہوسکتے ہیں دیکھئے حدیث میں دعا آئی ہے ۔ اللهم اجعلني في عيني صغيرا وفي اعين الناس كبيرا عین الناس میں کبیر ہونے سے حفاظت رہتی ہے ذلت اور ظلم وغیرہ سے اور فی عینی صغیرا سے حفاظت رہتی ہے کبر سے ۔ فرمایا سید صاحب جب شاہ عبد العز یزصاحب سے سلوک طے کرتے تھے ۔ شاہ صاحب نے سید صاحب سے تصور شیخ کرانا چاہا تو سید صاحب نے قبول نہ کیا شاہ صاحب نے کہا ،، بے سجادہ رنگین کن گرت پیر مغاں گوید ،،۔ فرمایا اس شعر میں تو گناہ کی نسبت کہا ہے شراب پینا گناہ ہے اور تصور شیخ شرک ہے حافظ صاحب کے شعر میں یہ کہاں ہے کہ امر شیخ سے شرک بھی کر لو ۔ شاہ صاحب نے سید صاحب کی کمر ٹھوکی اور فرمایا اچھا ہم طریق نبوت سے تمھارا سلوک طے کروادیں گے ۔ چشتیہ کے یہاں تصور شیخ منع ہے