ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
چیز عدم محض سے وجود میں نہیں آسکتی دعوی ہے اس کا اثبات دلیل کے ساتھ قائل کے ذمہ ہے ۔ جب تک دلیل قطعی سے ثابت نہ کر دیا جائے دعوی کا ابطال کرو جس کا وجود نہیں اسکا ابطال فعل لا یعنی ہے وہ خود ابھی بطلان سے ثبوت میں نہیں آیا ۔ پھر ہم کیوں ابطال کریں ۔ وہ تو خود ہی باطل ہے مگر لوگ دیکھتے ہیں نہ بھالتے ہیں ذرا کسی نے چھیڑ دیا اور تیار ہو گئے نہ تو یہ چال ٹھیک ہے اور نہ وہ جواب ہی ٹھیک ہوتے ہیں جو مخالف کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں ایک بات کا تو جواب دیتے ہیں اور اس اعتراض اپنے ذمہ لے لیتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں ۔ کسی نے داڑ ھی کا کا ثبوت قرآن سے دیا ایک صاحب نے داڑھی کا ثبوت قرآن شریف سے دیا اس لفظ سے لا تاخذ بلحيتي ولا برا سي ۔ یعنی حضرت موسی علیہ السلام سے حضرت ہارون علیہ السلام نے کہا میری داڑھی نہ پکڑیئے معلوم ہوا کہ حضرت ہارون کی داڑھی تھی ۔ میں نے کہا جناب اس سے وجود لحیہ کا ثبوت ہوا نہ وجوبب لحیہ کا اور وجود کے لئے اتنا تکلف ناحق کیا اپنی داڑھی دکھا دینی تھی ۔ وجود کا ثبوت ہو جاتا ۔ اور اگر وجوب کا ثبوت دیا ہے تو وہ تو آیت سے بھی نہ ہوا ۔ کسی نے منی میں کیڑوں کا ثبوت قرآن سے دیا ایک صاحب نے منی میں کیڑے ہونے کا ثبوت قرآن کریم سے دیا ۔ سورۃ اقراء میں لفظ من علق جو نک کو کہتے ہیں اور کیڑا ایک ہی چیز ہے ہمارے قرآن میں وہ چیزیں موجود ہیں جو اب تیرہ سو برس کے بعد لوگوں کو معلوم ہوئیں ۔ دین میں ایسی جرات ہوئی ہے لوگوں کو کہ ہر شخص دخل دینے کو تیار ہے لغت تک کے علم کی ضرورت نہیں رہی ۔ ہر کیڑا تو جونک نہیں اور منی میں جو نک نہیں اور مجاز کی کوئی دلیل نہیں پھر القرآن یفسر بعضہ بعضا اور دوسری آیات میں فرمایا ہے ۔ من نطفة ثم من علقة ثم من مضغة جس سے صاف واضح ہوا کہ علق ایسی کوئی چیز ہے جو نطفہ ومضغہ کے درمیان میں ہے تو وہ خون بستہ ہے اور وہ کیڑا تو نطفہ کے ساتھ ہوتا ہے نہ کہ نطفہ کے بعد اور مضغہ کے قبل پس علق کے معنی لغت عرب میں خون بستہ کے ہیں ۔ کیا قرآن سے عقیدت اور محبت ہے کہ اس میں وہ چیزیں داخل کی جاتی