ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
پھر علمی وعملی کمال جدا مگر وضع سے مطلق نہیں معلوم ہوتا کہ یہ کچھ بھی ہیں یہ ذکر کا اثر ہے ذکر عجیب چیز ہے سب اصلاحیں اس سے ہو جاتی ہیں مولوی عبد الغنی کس قدر سادے ہیں کہ یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ یہ پڑھے لکھے بھی ہیں ۔ ذکر بناوٹ کو تو بالکل ہی اڑا دیتا ہے ۔ مولوی عیسی صاحب بہت خوش پوشاک تھے ایک دن کہنے لگے کہہ تزئین میں کیا حرج ہے یہ تو جمال ہے اور حدیث میں ان الله جميل و يحب الجمال میں سنتا رہا بعد میں میں نے کہا مولوی صاحب اسی وقت تک یہ سب ہے ۔ جب تک کہ حقیقت منکشف نہیں ہوئی اور جب حیقت منکشف ہوگی تو ان الله جميل و يحب الجمال سے استدلال رکھا جائے گا صحیح مفہوم اس کا سمجھ میں آجائے گا ۔ چنانچہ وہ تھانہ بھون میں رہے ۔ اب ان کی حالت دیکھئے کہ اچکن اور گھڑی اور وضع قطع سب بھول گئے ۔ غریبوں کی سی وضع ہو گئی ۔ اب وہ ایک ضلع میں ہیڈ مولوی ہیں ۔ طالب علمون کی طرح سے رہتے ہیں جھومتے جھامتے چلتے ہیں ۔ راستہ میں ملنے والوں کو پہنچانتے بھی نہیں ان کی حالت دیکھ کر الہ آباد میں اسکول میں طالب علموں نے میرے وعظ میں آنا چھوڑ دیا تھا اس ڈر سے کہ انہیں کی طرح ہم بھی نہ ہو جائیں ۔ دیکھو اب کہاں گیا ان الله جميل ويحب الجمال ۔ سے استدلال ذکر سے اپنا ہوش نہیں رہتا بات یہ ہے کہ بناوٹ اسی وقت تک ہو سکتی ہے جب تک کہ تن بدن کا ہوش ہو اور یہ ہوش جب ہوتا ہے جب کہ اور کوئی مشغل نہ ہو ذکر ایسی چیز ہے کہ تمام ہوش کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اپنا ہوش بھی نہیں رہتا ۔ خواجہ عزیزالحسن صاحب کو دیکھئے کہ ڈپٹی کلکٹر تھے مگر چپراسیوں میں اور ان میں کچھ فرق نہیں ۔ ان کو لوگ وضع قطع پر بہت ٹوکتے ہیں مگر حالت کسی پر طاری ہو تب وہ جانے ۔ خواجہ صاحب کا ایک قصہ میں ایک دفعہ سردی کے موسم میں خواجہ صاحب کے یہاں مہمان تھا میں نے صبح کا وضو کیا رومال سے منہ پونچھا اور کنگھی کی اور عمامہ باندھا جرابیں پہنیں ۔ خواجہ صاحب کے خاندان کی ایک بڑی بوڑھی بی بی کہیں سے دیکھ رہیں تھیں ( عورتوں کی عادت ہوتی ہے پیر کو جھانکنے کی ) خواجہ صاحب سے کہنے لگیں دیکھ تو تو جن کا مرید ہے وہ تو انسانیت کے ساتھ رہتے ہیں رومال بھی جوتا بھی صاف عمامہ بھی اچھا باندھتے ہیں صورت شکل سنوارے رہتے ہیں ایک تو ہے نہ کپڑے کا ہوش ہے نہ جوتے کا نہ رومال