ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
جائے اس کو راضی کیجئے ۔ خواجہ صاحب دوڑے اور اس کو روک کر دو آنہ پیسے اور دیئے اور احقر نے کہا وہ راضی نہیں ہوا ۔ خواجہ صاحب نے اس سے پوچھا کہ تم اب ناخوش تو نہیں ہو اور اگر ناخوش ہو تو کچھ دیدیں اس نے کہا میں خوش ہو گیا اور کچھ نہیں چاہتا تب اس کو رخصت کیا مطبع نظامی میں اوپر کے اس کمرے میں جس میں حضرت والا کسی زمانے میں بیٹھا کرتے تھے ۔ فرش بچھا کر حضرت کو ٹھہرایا گیا ۔ خبر ملتے ہی مدرسہ جامع العلوم کے طالب علم اور چند اشخاص زیارت کے لئے آئے ۔ کھانا کھانے کے بعد حضرت والا قیلولہ کے لیے لیٹ گئے اور بندہ اور خواجہ صاحب حضرت سے اجازت لے کر محلہ کرنیل گنج کو گئے بندہ کے والد ماجد کے ایک شناسا وہاں رہتے تھے ۔ جن کے مکان میں عرصہ دراز تک بندہ کی ہمشیرہ بھی رہی تھیں ۔ نیز ان کے یہاں سے کچھ اپنا اسباب لینا تھا ظہر کے بعد ہم دونوں لوٹ آئے ۔ گنگوہ کے پیرزادوں کی صلاحیت حضرت والا نے کچھ حالات گنگوہ کے بیان فرمائے ازانجملہ یہ کہ وہاں کے پیرزادے کچھ ہمارے خلاف مسلک رکھتے ہیں ۔ لیکن صلاحیت اس قدر ہے کہ ایک پیر صاحب نے اپنے گھر میں مجھ سے مرید کرایا ۔ کسی نے ان صاحب سے پوچھا کہ تم نے اپنے گھر میں اس سے کیوں بیعت کرایا ۔ کہا پیر تو وہی ہیں اور ہم تو پیٹ کے پیر ہیں ۔ اسطرح ایک سجادہ صاحب نے اپنے گھر میں مجھ سے بیعت کرایا ہے ۔ سجادہ صاحب رسمیں کرتے ہیں اور ان کی یہ بی بی شریک نہیں ہوتیں حضرت گنگوہی جب اول اول بیٹھے تو مخالفت ہوئی مولانا نے وعظ کہنا چھوڑ دیا ۔ لوگوں نے کہا مولانا وعظ نہیں کہتے ۔ تو ایک پیرزادے صاحب کہتے ہیں کہ وعظ نہ کہنا بھی مولانا کی شفقت ہے ۔ کیونکہ ان کے مضامین سے تم اختلاف کرو گے اور وہ جو کچھ بیان کرتے ہیں ۔ وہ عین شریعت ہوتا ہے اس کی مخالفت سے کافر ہوجاؤ گے ۔ گنگوہ میں حضرت شیخ عبد القدوس قدس سرہ کا حجرہ بالکل بجنسہ محفوظ ہے اس کے آگے سہ دری ہے مولانا نے بنادی تو لوگ مخالف ہوئے ۔ مولانا کشیدہ ہو کر شہر میں چلے آئے ۔ پھر اس طرف کے لوگ آئے اور منا کر لے گئے اور یہ شرط کی کہ سہ دری کی لاگت بھی ہم سے لے لیجئے۔ قصبہ بڑوت ضلع میرٹھ میں ایک پیرزادے ملازمت پیشہ تھے وہاں ایک واعظ آگئے وہ ایسے