ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
تقریر ادب الاعتدال پھر فرمایا میں جب کسی کا بلایا ہوا جاتا ہوں تو اس کے آدمی کو لے لیتا ہوں ۔ فرمائش کرنا بہت سہل ہے مگر یہ مشکل ہو تا ہے انتظام " کارے دارد " بہت سے فائدے ہیں اس میں ۔ پھر اس مضمون پر پونے دو گھنٹہ تک تقریر رہی ۔ یہ تقریر مستقل طور سے ضبط کی گئی ۔ خلاصہ اس کا اعتدال عادات وافعال ہے ۔ اسی وجہ سے اس کا نام حضرت نے " ادب اعتدال " تجویز فرمایا ( یہ تقریر 23 صفحہ 291 سطر پر صاف ہوئی ) ایک مخالف کا قصہ فرمایا ایک شخص جو ہمارے مجمع کے سخت مخالف ہیں بلکہ راس المخالفین ہیں ۔ اتفاق سے مجھے ایک اسٹیشن پر ملے ۔ انہوں نے مجھ کو پہچانا نہیں کوئی معزز آدمی سمجھ کر کئی دفعہ فرشی سلام کئے ۔میں دوسری طرف متوجہ تھا ۔ اس واسطے اس کو کئی مرتبہ سلام کرنا پڑا ۔ اس کے بعد کسی نے ان کو خبر دی کہ یہ فلاں شخص ہے تو ان کو اس قدر غیظ آیا کہ پلیٹ فارم سے بھی باہر چلے گئے ۔ جب ریل میں ہم بیٹھے تو ایک آدمی ان کے مجمع کا بھی ہمارے درجہ میں بیٹھ گیا ۔ مجھے بڑی کدورت ہو ئی ۔ اور میں نے دعا مانگی کہ اے اللہ یہ یہاں سے چلا جائے خدا کی قدرت کہ ایک آدمی آیا کہ چلو تمھیں اعلی حضرت بلاتے ہیں ( یہ اعلی انا ربکم الاعلی میں کا ہے ) کسی نے اس پر خوب اعتراض کیا جب ان کے واسطے تو اعلی حضرت کا لفظ بولا جاتا ہے تو حضور ﷺؤ کے لئے کو ن سا لفظ بولا جائے گا ۔ ( یہ بے ادبی رسول ) کسی کو برا بھلا نہیں کہا کرتا ہوں ۔ مگر ان کے واسطے میرے دل سے برا نکلتا ہے اس کی صورت ہی عالموں کی سی نہیں ہے ۔ مجموعی ہیئت سے بھانڈ معلوم ہوتا ہے ۔ کفار اتنے مسخ نہیں ہوتے جتنے اہل بدعت یہ عجیب بات ہے کہ خالص کفار اتنے ممسوخ نہیں ہوتے جتنے یہ لوگ ہوتے ہیں ۔ اس کی وجہ میں نے بطور لطیفہ کہ ایک دفعہ کہا تھا کہ کفر فعل باطن ہے اور سب وشتم فعل ظاہر ۔ سب سلف کا اثر صورت پر ظاہر ہوتا ہے ۔ فعل باطن کا اثر باطن تک محدود رہتا ہے ۔ اور فعل ظاہر کا اثر ظاہر ہو جاتا ہے ۔ جیسے کہ طبرائی