ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کا قصہ حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ ایک صحابی ہیں انہوں نے اسلام کا چرچا سنا تو اپنے گاؤں سے اپنے بھائی کو مکہ بھیجا تا کہ حضور ﷺ کے حالات کی تفتیش کریں تاکہ حق کی تحقیق ہو جائے انہوں نے واپس جا کر کچھ حالات بیان کئے مگر ان سے ان کی تسلی نہ ہوئی بالآخر خود مکہ آئے ۔ مگر حضور ﷺ سے نہ مل سکے ۔ کیونکہ اس وقت میں حضور ﷺ تک پہنچنا بہت مشکل تھا ۔ بچہ بچہ اسلام کا اور مسلمانوں کا دشمن تھا ۔ یہ پردیسی آدمی کوئی ان کا ٹھکانہ بھی مکہ میں نہ تھا ۔ کہاں ٹھیرتے اور کھانے پینے کا آرام ہوتا ۔ مگر زم زم شریف عجیب دولت ہے ۔ انہوں نے ایک مہینہ تک اسی پر گذر کی جب بھوک لگتی تو اسی کو پی لیتے جب پیاس لگتی تو اسی کو پی لیتے ایک روایت میں ہے کہ ابو ذر ایسے مونے ہو گئے کہ پیٹ میں بٹ گئے ۔ مدت کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا چلو حضور ﷺ تک میں تمہیں پہنچا دوں مگر زمانہ خوف کا ہے ۔ اس طرح چلو کہ کوئی یہ نہ پہچانے کہ تم میرے ساتھ چل رہے میں آگے آگے تھوڑے فاصلے پر چلونگا اور تم میرے پیچھے آنا ۔ اور اس پر بھی اگر کوئی شخص مل گیا تو میں پیشاب کرنے کے بہانے راستہ کے کنارے بیٹھ جاؤں گا تم گذرتے چلے جانا ۔ یہ ثابت نہ ہو کہ تم میرے ساتھ ہو ۔ ورنہ تمہارے واسطے بھی بر ا ہو گا اور مرے واسطے بھی یہ وہ وقت تھا کہ مسلمان کے ساتھ ہونا بھی جرم تھا دیکھئے ۔ کس قدر خطر ناک وقت تھا ۔ مگر دل کی آگ اس کو کہتے ہیں کہ اسی ترکیب سے حضور ﷺ کے پاس پہنچے اور اول ہی جلسہ میں مسلمان ہو گئے ۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اس وقت تم اپنے گاؤں کو چلے جاؤ ہمیں امید ہے کہ ہجرت کی اجازت ہو جائے گی تب وہاں آجانا اور اپنے اسلام کو یہاں ظاہر نہ کرنا ۔ ابوذر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ حضرت کفر کو تو ہمیشہ ظاہر کیا اسلام کو کیا چھپاؤں گا یہاں سمجھ لینا چاہئے کہ یہ مخالفت امر نہیں ہے ۔ کیونہ ظاہر ہے نہی شفقۃ تھی اس خیال سے کہ مبادا کوئی مخالف کچھ ایذا ء نہ پہنچا دے اس صورت میں تعمیل امر نہ کرنا مخالفت نہیں ہے بلکہ عمل علی العزیمت ہے (اور اسی لئے یہ قصہ بیان کیا گیا ۔ ) غرض انہوں نے گوارا نہ کیا کہ اخفائے اسلام کریں اور اظہار کے لئے بھی یہ بھی غضب کیا کہ وہ صورت اختیار کی جس میں جان کا خطرہ تھا ۔ مسجد حرام میں پہنچے وہیں کفار کی بیٹھک تھی ۔ جس کا نام دار الندوہ تھا ۔ جو اب حرم شریف کا جز و ہے وہاں