ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
کھانے میں ایسی برکت ہوئی کہ سب نے کھالیا ۔اور بھی رہا ۔یہ کرامت تو کمال ہے ہی ۔دوسرا کمال دیکھے کہ حضرت حافظ صاحب کو خبر ہوئی تو بطور اعتراض فرمایا کہ اب کیا ہے آپکا رومال سلامت چاہے اب قحط تو کیوں ہی پڑنے لگا ۔اور انتقاص رزق میں جو حکمتیں ہیں اب وہ سب معطل ہو جائیں گی تو حضرت بہت شرمندہ ہوئے اور فرمایا کہ واقعی خطا ہوئی ۔توبہ کرتا ہوں ۔پھر ایسا نہ ہو گا یہ ہے کمال کہ جس کو لوگ کمال سمجھتے ہیں وہ ان کے نزدیک توبہ کرنے کے لائق ہے حافظ صاحب بھی بڑے شخص تھے حافظ صاحب کاایک مقولہ ہے جسکو حضرت گنگوہیؒ نے بے حد پسند کیا وہ یہ کہ ذکر ہوا کہ بعض بزرگوں کا قول ہے کہ کھانا کھاتے میں ہر لقمہ پر بسم اللہ کہے ۔اس پر حافظ صاحب فرماتے ہیں ہمیں تو طریقہء سنت زیادہ پسند ہے کہ اول میں ایک دفعہ بسم اللہ کہہ اور اخیر میں الحمد اللہ کہے اس سے زیادہ ثابت نہیں ۔ان حضرات کو سنت کے ساتھ کس قدر عشق ہے اور حافظ صاحب نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ذکر میں ہمیں تو صرف یہ نیت اچھی لگتی ہے جس کاوعدہ قرآن شریف میں ہے ۔فاذكروني اذكركم اور واقعی یہی بات ہے اس میں یہ بھی فائدہ ہے کہ اس کا معتقد کبھی بد دل نہ ہو گا ۔ مولانا محمد قاسم صاحب میں شان ولایت کا رنگ غالب تھا اور مولانا گنگوہی میں شان نبوت کا ۔مولانا محمد قاسم صاحب سے حضرت حاجی صاحب کو بہت محبت تھی اور حضرت کے پاس تو جو کوئی جاتا تھا یہی معلوم ہوتا تھا کہ سب سے زیادہ خصوصیت حضرت کو میرے ہی ساتھ ہے حضرت مرید ہر شخص کو کرلیتے تھے ۔بجز اس شخص کے جس کا پیر زندہ ہو اور اہل حق میں سے ہو ۔ بی بی خیر النساء کا ذکر حق تعالی نے حضرت کا وجود رحمت مجسم بنایا تھا ۔بی بی ایسی دی تھی کہ ان بی بی خیر النساء میں اور حضرت حاجی صاحب میں صرف فرق ذکورت و انوثت کا تھا ۔ ورنہ بڑی کاملہ تھیں ۔مثنوی کی عالم تھیں ۔ مثنوی انہوں نے اور حضرت نے ایک ہی بزرگ سے پڑی تھی ۔بیعت کے متعلق حضرت فرمایا کرتے کہ دو وجہ ہیں کہ میں کسی کو انکار نہیں کرتا ایک تو یہ کہ وہ کہیں بے جگہ نہ پھنس جائے دوسرے یہ کہ معلوم نہیں کہ عند اللہ کون بہتر ہے ممکن ہے کہ کوئی مجھ سے اچھا ہو اور ہاتھ میں ہاتھ دینے سے قیامت میں اس کا ہاتھ مجھ کو کھینچ لے ۔سبحان اللہ کیا تواضع ہے حضرت اپنے آپ کو کچھ بھی نہیں سمجھتے تھے ۔ حضرت حاجی صاحب حافظ قرآن بھی تھے (اس وقت حضرت والا پر حضرت حاجی صاحب کے ذکر کا خاص اثر تھا ۔)