ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
حدود کے ساقط کرنے کے لئے ادنی درجہ کی مشابہت کو بھی معتبر مانا ہے اور صرف نکاح کی صورت پیدا ہو جانے سے حد کو ساقط کر دیا انصاف کرنا چاہئے کہ یہ کس درجہ عمل بالحدیث ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ ایک صحیح معنی کو برے اور مہیب الفاظ کی صورت پہنا دی جائے ۔ اس مسئلہ کی حقیقت تو غایت درجہ کا اتباع حدیث ہے ۔ لیکن اس کو اس طرح بیان کیا جاتا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ نعوذ باللہ امام صاحب نے نکاح بالمحرمات کو چنداں برا نہیں سمجھا اور بھی چند مسائل اسی طرح بری صورتوں سے بیان کرکے اعتراض کئے جاتے ہیں ۔ البتہ اعتراض جب تھا کہ اس امام صاحب کوئی زجرد احتساب تجویز نہ کرتے ایسے موقعوں پر جہاں حد کو ہمارے فقہاء ساقط کرتے ہیں تعزیز کا حکم دیتے ہیں ۔ ایسے موقعے تمام ائمہ کے نزدیک بہت سے ہیں کہ شبہ سے حد ساقط ہو گئی ۔ آخر حدیث کی تعمیل کہیں تو ہوگی ۔ اور کوئی تو موقعہ ہو گا جہاں ادرو الحدود بالشبهات كر كے ديكها جائے تو اس كا مطلب هےکہ وہ فعل جس پر حد شبہ سے ساقط ہو گئی چنداں برا نہیں سمجھا گیا صرف فرق اتنا رہا کہ امام صاحب ادنی شبہ کو بھی کافی سمجھتے ہیں اور ، اور لوگ تھوڑے شبہ کو معتبر نہیں سمجھتے ۔ پھر غایت درجہ کا اتباع حدیث یہ ہوا یا وہ ۔ کیا اندھیر ہے کہ ایسے شخص کو تارک حدیث ضعیف کو بھی قیاس پر مقدم رکھے ۔ وہ تو کس قدر عامل بالحدیث ہے فدا ہو جانا چاہئے ۔ ایسے شخص پر امام مالک صاحب تو خبر واحد پر بھی قیاس کو مقدم رکھتے ہیں ان کو تو لوگ عالم بالحدیث کہتے ہیں اور امام صاحب حدیث ضعیف پر بھی قیاس کو مقدم نہیں رکھتے اور ان کو تارک حدیث کہتے ہیں ۔ حضرت والا نے اہل بڑھل گنج سے فرمایا کل بوقت وعدہء دعوت ہم تخمینہ دس آدمیوں کا کیا تھا اس وقت اندازہ ہوتا ہے کہ چودہ پندرہ آدمی ہو جائیں گے لوگوں نے عرض کیا اس کا کیا خیال فرمایا پندرہ کیا سولہ ہو جائیں تو کیا ہے فرمایا اطلاع تو کر دینا چاہئے ۔ جس چیز کا نرخ بدلتا ہے زکوۃ کس طرح دی جائے سوال : رنگ ( پڑیہ ) کا نرخ بدلتا رہتا ہے تو زکوۃ کس نرخ کے حساب سے دی جائے ۔ فرمایا اداء زکوۃ کے وقت کے نرخ کا اعتبار ہے اور اگر اس وقت بھی مختلف ہو تو نرخ وسط کا اعتبار ہو گا یا عمدہ ترکیب یہ ہے کہ چالیسوں حصہ رنگ تول کر نکال دے اور زکوۃ میں دیدے ۔ عرض کیا گیا کہ آجکل پڑیہ میں لوگوں کو بڑے بڑے نفع ہوئے ہیں ۔ اور لوگوں کا خیال ہے کہ ابھی نرخ اور بڑھے گا اس واسطے بہتوں نے پڑیہ کو