ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
انکسار اور تواضع اس قدر تھی کہ چھوٹا تو کسی کو سمجھتے ہی نہ تھے ۔ ایک مرتبہ حضرت گنگوہی نے ایک عمامہ بھیجا تو حضرت نے اس کو سر پر رکھ لیا اور وطن سے تو اس قدر تعلق تھا کہ مولوی معین الدین صاحب نے ایک ہرن تھانہ بھون سے شکار کیا تھا ۔ اس کی کھال حضرت کے یہاں بھیجی تو فرمایا اس میں بوئے وطن آتی کہا گیا یہ کھال تھانہ بھون کے ہرن کی ہے فرمایا ہاں یہی وجہ ہے ایک شخص نہایت مسخرہ اور بے باک تھانہ بھون کے رہنے والے جن کو حضرت نے دیکھا بھی نہ تھا ۔ حضرت کے یہاں گئے اور زیادہ مجمع کی وجہ سے ایک طرف چپکے بیٹھ گئے ۔ حالانہ وہ کچھ دین دار اور حضرت کے مذاق کے نہ تھے مگر بیٹھتے ہی حضرت نے فرمایا اس مجلس میں کوئی شخص وطن کا ہے وہ پیچھے کو بیٹھے ہوئے تھے عرض کیا حضرت میں ہوں تھانہ بھون کا حضرت کو وطن سے اسقدر محبت تھی کہ تھانہ بھون کے حالات مفصل پوچھا کرتے تھے ۔ درو ویوار کو الگ پوچھتے پوچھا کرتے کہ اگر میں تھانہ بھون جاؤں تو کہاں ٹھیروں ۔ خلوت از اغیار نہ ازیار ایک دفعہ مولانا فتح محمد صاحب خلوت میں حاضر ہوئے ۔ حضرت ان سے باتیں کرتے رہے وقت زیادہ صرف ہو گیا ۔ مولانا نے بطور معذرت عرض کیا ۔ حضرت کے اور اداور عبارت میں آج حرج ہوا ۔ فرمایا احباب کی اور اہل دل کی دل جوئی کرنا کیا عبادت نہیں ۔ غرض حضرت کو شفقت بہت زیادہ تھی اس کی وجہ سے حضرت سے نفع زیادہ ہوا ۔ اس واسطے کہا ہے ۔ بندہ پیر خرابا تم کہ لطفش دائم است زانکہ لطف شیخ وزاہد ہست وگاہ نیست ایسی شفقت کسی شیخ میں دیکھی ہی نہیں ۔ ناراضی میں بھی کسی کو نہیں نکالا ۔ ایک شخص شاعرانہ مذاق کے تھے مدحیہ قصائد لکھا کرتے تھے ایک دفعہ ایک قصیدہ مدحیہ لے گئے اور حضرت سے اجازت تک نہ لی اور پڑھنا شروع کر دیا ۔ حضرت کی پیشانی پر بل پڑ گئے ۔ سنت حضرت کی طبیعت میں داخل تھی مدح سے طبعا نفر تھی اور یہی مقتضائے سنت ہے اور وہ حضرت ایک طرف کو دھیان کئے ہوئے سناتے ہی رہے اور بعد ختم کے داد کے منتظر رہے ۔ داد سنئے کیا ملی ۔ حضرت فرماتے ہیں بھائی کیوں جو تیاں مارا کرتے ہو ۔ نہ نکالنا نہ چلانا ترود تو جانتے ہی نہ تھے ۔ داد ، دی مگر کیسی سخت داد جس میں تواضع بھی باقی رہی اور وہ شرمندہ ہو گیا ۔