ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
السلام اپنے آباء سے فرماتے ہیں سوف استغرلك ربي انه كان بي حفيا ۔ کہا گیا اور اس کا کیا مطلب ہے فلما تبين له انه عدو لله تبر منه فرمای دونوں میں تطبیق یہ ہے کہ وعدہ استغفار بمعنی دعائے توفیق للایمان جو مستلزم مغفرت ہے پہلے تھا اور تبری اس وقت ہوئی جب کہ معلوم ہو گیا کہ وہ ایمان نہ لائیں گے سوف استغرلك ربي ۔ کا سیاق وسباق صاف بتاتا ہے کہ یہ قصہ ابتداء کا ہے ۔ سوال : قیامت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا استغفار باپ کے لئے ثابت ہے حتی کہ جب ان کو بجو نجاست آلودہ کی صورت میں دیکھیں گے تب ان سے گھنائیں گے ۔ جواب : صریح استغفار نہیں تعریض ہے نظرا الی قدرۃ الحق پھر وہ مشکل دیکھ کر تعریض بھی نہ رہے گی ۔ مثنوی کے اس شعر کی شرح تنسیخ نہیں ہے کسی نے پوچھا مثنوی کے اس کے کیا معنی ہیں ۔ "جملہ عالم آکل دما کول واں "۔ فرمایا اس کی شرح میں کلید مثنوی میں کر چکا ہوں ۔ اس میں دیکھ لی جائے اور اس سے تناسخ ثابت نہیں ہوتا (راقم کہتا ہے تقریر اس کی یہ ہے کہ اہل تناسخ تناسخ کے یہ معنی لیتے ہیں کہ روح کو بار ، بار نئے جسموں میں بطور جزا سزا کے اعادہ کرایا جاتا ہے ۔ یہ بات فی نفسہ ممکن تھی مگر بعض نے اس کو رد کیا ہے اس واسطے باطل ہے ۔ رہا آکل وماکول ہونا اس طرح پر کہ ایک جسم دوسرے جسم کا جزو بنتا ہے اور طرح طرح کے تقلبات ہوتے ہیں اس میں کوئی شرعی اشکال نہیں ۔ تصنع سے احتراز اور سادگی فرمایا حضرت حاجی صاحب کا عجیب مذاق تھا کوئی بات پوچھی جاتی تو بعض وقت تو جواب دیتے اور بعض وقت فرماتے کہ اس وقت طبیعت حاضر نہیں اور بعض وقت فرماتے اچھا منتظر ہو کسی وقت بیان ہو جائے ۔ حضرت میں تصنع وتکلف ذرا نہ تھا ۔ اہل ظاہر میں یہ بات نہیں ہوتی ۔ ان کو یہ خیال مارتا ہے کہ سوال کا جواب نہ دیا جائے گا تو لوگ کہیں گے ان سے یہ سوال حل نہ ہوا ۔ لوگوں کا خوف ہے اور وہاں لوگوں کا گذر بھی نہیں ۔ حضرت والا نے یہ عادت حضرت حاجی صاحب کی اپنے اس لفظ کی تائید میں بیان فرمائی کہ میں اس شعر مذکور کی شرح کر چکا ہوں اس وقت اس کا اعادہ منظور نہ تھا ۔ یا ذہن میں