ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
بٹھایا ۔ مختلف باتیں کرتے رہے ۔ پوچھا ہم نے سنا ہے کہ آپ نے قرآن کی تفسیر لکھی ہے میں نے کہا ایک پیسہ بھی نہیں کہا ۔ پھر اتنی بڑی کتاب لکھنے سے کیا فائدہ میں نے کہا دو فائدے ہیں ۔ ہمدردی قومی یعنی مسلمانوں کو دینی نفع پہنچا جو کہ دنیا میں ایک نفع ہے ۔ اور خوشنودی احکم الحاکمین جو کہ نفع آخرت ہے انہوں نے بہت تعجب کیا کیونکہ یورپ کے مذاق کے یہ بات بالکل خلاف ہے ۔ حکام کی بے ادبی سے دینا وآخرت دونوں کے نقصان ہیں فرمایا ترک تعظیم حکام میں دنیا اور آخرت دونوں کا نقصان ہے ۔ دنیا کا تو ظا ہر ہے اور آخرت کا یہ کہ حکام سے بگاڑ کر آدمی بس صرف اس کام کا رہ جاتا ہے ۔ کہ ہر وقت اس سے بچنے کی تدبیر کرتا رہے ۔ قانون دیکھا کرے اور تیری میری خوشامد یں کرتا پھرے کیونکہ حاکم سے سر بر ہونا بڑا مشکل ہے اگر حاکم قانون کے اندر بھی اتنی گنجائشیں ملتی ہیں کہ گرفت سے بچنا مشکل ہے جو لوگ بڑے دلیر کہلاتے ہیں ۔ مشوش قلب کوئی کام نہ کرنا چاہئے ۔ اور جنھوں نے حکام سے مقابلی کئے قلب ان کا بھی فارغ نہیں رہتا ۔ گو وہ اپنی تشویشات کو ظاہر نہ کریں مگر رہتے ہیں بڑے فکر میں ایسی حالت میں دین بھی کیا درست رہتا ہے آدمی ایسا کوئی کام نہ کرے جس سے قلب کو مشغولی بغیر حق ہو ۔ ہر وقت قلب کو مہیا رکھے ۔ تو جہ الی الحق کے لئے ۔ کسی نے عرض کیا کہ حضرت کے بال اس عرصہ دو سال میں سفید ہو گئے ۔ فرمایا ہاں مجھے ایک طاعونی بخار آیا تھا یہ اس کا اثر ہے وہ ایسا بخار تھا کہ الامان ۔ میں سترہ روز بیہوش رہا ۔ بالکل بیہوشی نہ تھی بد حواسی تھی ۔ اور بدن ایسا بے قابو ہو گیا تھا ۔ کہ میں کھڑا نہ ہو سکتا تھا ۔ مگر نماز برابر کھڑے ہو کر ہی پڑھی ۔ دو آدمی کھڑا کر دیتے تھے ۔ بس جب نیت باندھ لیتا تھا تو ضعف بالکل نہیں معلوم ہوتا تھا ۔ مگر احتیاطا ایک آدمی قریب کھڑا رہتا تھا ۔ کہ اگر گروں تو سنبھال لے ۔ مگر یہ نوبت کبھی نہیں آئی ۔ مرض میں حضرت والا کا استقلال فی الدین دوسرے یہ کہ اس بد حواسی میں آنے والوں کے ساتھ کسی مناسب بر تاؤ میں فرق نہیں آیا گویا حواس میں غلطی نہیں آئی ایک شخص کا بیان تو یہ ہے ۔ ( مجھے تو بعد افاقہ کے یہ یاد نہیں کہ یہ واقعہ ہوا تھا ۔ ) کہ