ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
منہمک کردیتے ہیں اگر کتابی تعلیم دین کی نہیں ہوسکتی تو زبانی تعلیم تو ممکن ہے ۔ مگر یہ بھی نہیں کرتے کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ بچوں کو نماز سکھائی جائے ۔ دین کے ارکان سنائے جائیں اس میں تو ان کو کچھ محنت نہیں پڑے گی ۔ اور کچھ وقت بھی زیادہ خرچ نہ ہو گا ۔ اگر بڑوں کو خیال ہو تو دین کے تمام ضروری اصول و فروع ان کو سکھاتے ہیں مگر یہ سب کچھ جب ہی ہو جب کہ دین کی پرواہ ہو ۔ اصل یہ ہے کہ دین کی کسی کو پروا ہی نہیں چھوٹو ں کو یہ عذر ہے کہ بڑوں نے ہم کو اس طرف نہ لگایا اور بڑوں نے یو ں دل کو سمجھا لیا ہے کہ علم معاش سے فرصت نہیں ہے ۔ کیوں صاحبو ! قانون کی ضروری باتیں بچوں کے کان میں کیسے پڑ جاتی ہیں کسی بچہ کو ہم نے یہ نہ دیکھا کہ علم معاش میں منہمک ہوکر اسے یہ معلوم نہیں ہے اور قانونا جرم بھی ہے اس سے جیل خانہ پہنچ جانے کا اندیشہ ہے میں انہیں مربی سے پوچھتا ہوں کہ اسی بچہ نے جب نماز نہیں پڑھی تو کیوں نہیں ٹوکا کیا اس کا ان کے پاس کوئی جواب ہے ۔ بے اصل یہ ہے کہ دین کی پرواہ نہیں اس کا نتیجہ آنکھ مچنے پر معلوم ہوگا ۔ دین کو ایسا چھوڑا ہے کہ اس کا نام ہی آنا غضب ہے ۔ اس کا نام آیا اور سو حیلے کھڑے ہوئے ۔ موجودہ تعلیم صرف غافل ہی کرنیوالی نہیں بلکہ دین کو برباد و غارت کرنے والی ہے تعلیم معاش پر ہماری اول تو یہی شکایت تھی کہ اس میں انہماک افراط کے درجہ پر پہنچ گیا ہے ۔ جس سے دین سے بے خبری ہو گئی ہے ۔ اور دوسری شکایت یہ ہے کہ وہ صرف دین سے غافل کرنے والا ہی نہیں بلکہ دین سے مخالف بنانے والا بھی ہے ۔ غرض ہر چہار طرف سے دین سے غفلت ہے اور دین کو بگا ڑنے کے سامان جمع ہیں ۔ جب یہ حالت ہے کہ دین کے ممد اسباب تو موجود نہیں اور دین کے مخالف اسباب موجود ہیں تو یہ زمانہ کی گرانی کا زمانہ ہے اور یہ قاعدہ ہے کہ گرانی کے زمانہ میں تھوڑی چیز بھی بہت سمجھی جاتی ہے ۔ لہذا اس وقت دین کی قیمت خدائے تعالی کے یہاں بہت ہے یہ مضمون اس حدیث سے نکلتا ہے ۔ جس کو میں نے ابھی بیان کیا تھا کہ فرمایا حضور ﷺ نے کہ اب زمانہ وہ ہے کہ اگر کوئی مامور بہ میں دسویں حصہ کی بھی کمی کرے تو ہلاک ہو جائے اور ایک زمانہ وہ آئے گا کہ اگر کوئی ماموربہ کا دسواں حصہ بھی بجالائے گا وہ نجات پا جائے گا ۔ اس حدیث کا مضمون کافی طور سے بیان ہو چکا اور اس مضمون کی