ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
ایک شخص نواب صاحب کے معتمد آئے ناشتہ بھی لایا گیا میں اس میں شریک نہیں ہوا ( الحمد للہ کہ نواب صاحب کا نمک نہ کھایا تھا ۔ کیونکہ ان کے منیجر صاحب سے لڑائی ہونے والی تھی ) وہ صاحب کہنے لگے بڑی خوشی ہوئی آپ کے آنے کی خصوصا جبکہ نواب صاحب مایوسی ظاہر کر چکے تھے کہ آپ نے ایسی شرطیں لگائی ہیں کہ جن پر عمل نہیں ہو سکتا تھا ۔ میں نے پوچھا نواب صاحب نے وہ شرط بھی بیان کی تھی ۔ کہا ہاں میں نے کہا کیا شرط بیان کی کہنے لگے وہ شرط یہ کہ مجھ کو کچھ نہ دیا جائے میں نے کہا جناب یہ شرط تو آسان تھی (یعنی کچھ نہ دینا ) یہ شرط سخت کس طرح ہے کہنے لگے آسان کیسے ہے محبوب کی خدمت کو تو جی چاہتا ہی ہے محبت نے تقاضا کیا تو نواب صاحب نے اتنی دور سے جناب کو تکلیف دی ہے یہ کیسے گوارا کیا جا سکتا ہے کہ کچھ خدمت نہ کی جائے ۔ امراء علماء کو پیاسا اور خود کو کنواں سمجھتے ہیں میں نے کہا کہ خدمت کا تو یہ بھی طریقہ ہو سکتا ہے کہ جو کچھ دینا ہو گھر بھیج دیا جائے ۔ دروازہ پر بلا کر خدمت کرنا کیا ضرورت ہے تو کیا کہتے ہیں کہ جناب گستاخی معاف پیاسا کنویں کے پاس جاتا ہے ۔ کنواں پیاسے کے پاس نہیں جاتا ۔ مجھے یہ لفظ سخت نا گوار ہوا میں نے کہا آپ اپنے کو کنواں اور ہم کو پیاسا سمجھتے ہیں حالانکہ واقع میں اس کا عکس ہے دلیل یہ ہے کہ ہمارے پاس دین ہے جس کی تم کو بھی حاجت ہے اور تمھارے پاس دینا ہے جس کی ہم کو حاجت ہے مگر اتنا فرق ہے کہ ہمارے پاس بقدر ضرورت بھی موجود نہیں اس لئے تم ہم سے کسی طرح مستغنی نہیں رہ سکتے اور یہ آپ کی بے حسی ہو گی اگر دین کی ضرورت محسوس نہ ہو ۔ بس چپ رہ گئے اور سر نہ اٹھایا ۔ چونکہ بات ہی ان کے منہ سے بہت بے جا نکلی تھی ۔ اس واسطے شرمندہ ہوئے اور غصہ نہ آیا تو دیکھئے اگر میں ان کا طالب بن کر گیا ہوتا تو کیا اس طرح گفتگو کرنا ممکن ہوتا ۔ اس صورت میں ایسی گفتگو پر ان کو غصہ آیا اور اب خوموش اور دم بخود تھے ۔ غریب غربا میرے اور ان کے اس واقعہ سے بڑے خوش ہوئے اور کہتے تھے اس متکبر کا تکبر کبھی نہ ٹوٹا تھا ۔ آج اسی نے توڑا ہے پھر و وہ جہاں ملتے جھک کر سلام کرتے تھے پھر مجھے ایسا انقباض ہوا کہ نواب صاحب کے پاس بھی کیوں جاؤ اور میں اس کی کوٹھی میں ٹھیرا بھی نہیں ۔