اعتقاد میں بھی ہو، اور حیثیت اس کی شیخ کا مصلح ہونا ہے ۔ یعنی مصلح ہونے کی حیثیت سے صرف تعلیمات سلوک میں اس کے اقوال پر عمل شرط نفع ہے۔ اب ان قیود کے فوائد احتراز یہ بتلاتاہوں ،
’’ تعلیمات قولیہ‘‘ کی قید سے خود شیخ کے افعال بھی نکل گئے ، خواہ وہ افعال طالب کے اعتقاد میں جائز ہوں جیسے شیخ پانچ سو رکعات نفل روزانہ پڑھتا ہو یا صوم داؤدی۲؎ ہمیشہ رکھتاہو۔ اس میں اتباع ضروری نہیں ، اور خواہ وہ افعال طالب کے اعتقاد میں جائز نہ ہوں ، خواہ مختلف فیہ ہونے کے سبب ، جیسے شیخ فاتحہ خلف الامام پڑھتا ہو، اور طالب اس کو مکروہ جانتاہو، خواہ شیخ غلطی سے کسی فعل ناجائز میں مبتلا ہو، جیسے غیبت کرتا ہے۔ اس میں اتباع جائز بھی نہیں ۔
اور اسی قیدسے شیخ کے کشفیات نکل گئے ، خصوص جب کہ طالب کا کشف اس کے خلاف ہو۔ اسی طرح سے جمیع مسائل اصولیہ وفرعیہ جن کا تعلق تربیت سے نہیں ، خارج ہوگئے ۔ البتہ ان میں جو امور شرعاً بھی ضروری ہیں ، وہ لازم العمل ہیں ، گوشیخ بھی نہ کہے۔ اور اگر شیخ حکم دے ، تو یہ حکم امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی حیثیت سے ہوگا۔ مصلح ہونے کی حیثیت سے نہ ہوگا اور ان میں خلاف کرنا شریعت کی مخالفت ہوگی نہ کہ شیخ کی مخالفت ۔ البتہ شریعت کی بنا پر شیخ ایسے طالب سے قطع تعلق کرسکتا ہے۔ اور یہ قطع تعلق شیخ کے ساتھ خاص نہیں ہر مسلمان کو اس کا حق حاصل ہے ۔ اس کا تعلق مسئلہ متابعت شیخ سے کچھ نہیں ۔
اسی طرح اس قید سے امور معاشیہ نکل گئے مثلاً شیخ کسی طالب سے یہ کہے کہ تم اپنی لڑکی کا رشتہ میرے لڑکے سے یا کسی اور سے کردو یہ بھی متابعت کا محل نہیں اور قید جواز کا فائدہ یہ ہے کہ جس چیز کی تعلیم کرتا ہے وہ اگر شرعاً ناجائز ہو اس میں اتباع جائز بھی نہیں ، خواہ اجماعاً ناجائز ہو جیسے کوئی معصیت خواہ ناجائز اختلافاً ہو ، جیسے مسائل
------------------------------
۱؎ نہ کہ شیخ کی پوری زندگی(سچ) ۲؎ ایک دن ناغہ کرکے برابر روزہ رکھنا(سچ)