تصوف کے چاروں سلسلوں کی تجدید
حضرت ڈاکٹر عبدالحئی صاحبؒ تحریر فرماتے ہیں :
قرون اولیٰ اور ائمہ مجتہدین کے عہدزریں کے بعد اس امت مرحومہ میں حاملان شریعت وطریقت کے زمرے میں جس قدر مقتدر ومقدس ، ہستیاں گزری ہیں ان میں حضرت مولانا شاہ محمد اشرف علی صاحب تھانوی نوراللہ مرقدہ‘ کی اس دور حاضر میں ایک بڑی نمایاں اور ممتاز شخصیت نظرآتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ہر طرح کے ظاہری وباطنی اوصاف سے متصف فرمایا تھا ۔ عالم ،حافظ اور قاری ہونے کے علاوہ صحیح معنوں میں حکیم الامت ومجدد ملت تھے اور قطب الارشاد تھے اور پھر صف اول کے مفسر ومحدث تھے اور صف اول کے فقیہ وامام تصوف تھے ۔
حضرت مولانا تھانویؒ قدس سرہ‘ العزیز نے حضرت حاجی امداداللہ صاحب مہاجر مکی ؒ نوراللہ مرقدہ‘ کی تعلیم وتربیت میں حصول سلوک کے لئے تمام سلسلوں کی تعلیمات پر عمل کیا، مراقبے کئے ، ریاضتیں کیں مجاہدے کئے باطن کے ہرمقام کا مشاہدہ کیا اور چاروں سلسلوں سے نور اور سوز حاصل کیا ۔۔۔۔۔۔
حضرتؒ نے طریقت کے چاروں سلسلوں سے فیض حاصل کیا مجاہدے کئے ریاضتیں کیں ۔ قبص وبسط کی سخت اور دشوار گذار گھاٹیوں سے گذرے ، سلوک کاہر میدان طے کیا ۔ ہرمقام کی سیر کی ، تصوف کا گوشہ گوشہ دیکھا ۔ہردوکان معروفت پر گئے۔ حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی برکات وفیوض باطنہ حاصل کیں ان کے منشاء کو سمجھا۔ اس کے بعد یہ مجدد وقت تھانہ بھون کی خانقاہ میں ایک نسخہ اکسیر لے کر بیٹھا اور حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے سینہ پر گنجینہ کی شرح فرمائی ۔ پھر آسمان کے نیچے ایک مہتم بالشان مجلس لگی۔ رنگ ڈھنگ بدل گئے۔ پھر وضوح حق ہوا، حقیقت منکشف ہوئی ،طریق زندہ ہوا۔ اصلاح کا باب کھلا انسانیت تقسیم ہوئی اور گمراہی کے دروازے