اس کتاب کے مضامین عالیہ سے متعلق حضرت تھانویؒ کے متواضعانہ کلمات
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ مولانا عبدالماجد صاحب ؒ دریاآبادی کے ایک مکتوب کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں :
اب میں ان مضامین کے حدود کی حقیقت عرض کرتاہوں کہ برکات طالبین کے ہیں ، ماں دودھ سے خالی ہوتی ہے، بچہ کی برکت سے دودھ اترآتا ہے، اور اگر وہ پلانا چھوڑ دے تو سوکھ جاتا ہے، پس ان کی چھاتی ایک سڑک ہے کہ عالم فیض سے دودھ چل کر اس سڑک سے گذرتا ہوا بچہ کے معدہ پر منتہی ہوتا ہے۔
اسی طرح میں صرف ایک سڑک ہوں ، ان علوم کے واہب (عطا کرنے والے) حضرت حق( تعالیٰ ہیں ) موہوب لہ( جن کے لئے عطا کئے گئے) طالبین ہیں ، ان کے طفیل میں مجھ سے بھی وہ علوم مس۱؎ کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں ۔ اور اگر اس سے زیادہ کوئی حقیقت ہے تو میرا کیا نقصان ہے، مگر میری جہاں تک رسائی ہے اتنی ہی بات معلوم ہوتی ہے۔۲؎
اشرف علی
حضرت مولانا عبدالباری صاحب ندوی ؒ تحریر فرماتے ہیں :
’’احقر نے تو ایک مرتبہ جسارت کر کے یہ سوال ہی پیش کردیا تھا کہ ’’حضرت کے علوم پر بے حد تعجب ہوتا ہے کاش اس میں کچھ کسب کو دخل ہوتا، کتابوں میں تو یہ چیزیں ملتی نہیں ‘‘
اس کے جواب میں حضرت تھانویؒ نے تحریر فرمایا:
’’یہ سب آپ کی محبت اور حسن ظن ہے ، اب اس تعجب کی وجہ عرض کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ ان علوم کے اس نادان کی طرف ظاہراً منسوب ہونے پر نظر گئی تو تعجب لازم
------------------------------
۱؎ چھوتے ہوئے ۔ ۲؎ حکیم الامت نقوش وتاثرات خط بنام مولانا عبدالماجد دریاآبادی