حاصل کرنا واجب ہوا اور یہی حقیقت ہے تصوف کی ۔ پس تصوف کا جزو دین ہونا ثابت ہوگیا۔
مگر قاعدہ یہ ہے کہ ہر چیز کے کچھ توابع اور ذرائع ہوا کرتے ہیں جیسے حج کے لئے سفر کرنا اور زادراہ(یعنی توشہ) ساتھ لینا جس سے پہنچنے میں سہولت ہو۔ اسی طرح تصوف میں اصل مقصود تو اصلاح قلب ہے کہ اخلاق حمیدہ حاصل ہوں اور رذیلہ زائل ہوں مگر اس مقصود کے لئے کچھ توابع وذرائع ہیں جن سے مقصود میں آسانی ہوجاتی ہے۔ جیسے اذکار واشغال واحوال وکیفیات جن کو آج کل لوگوں نے غلطی سے مقصود قراردے لیا ہے مگر یہ محض توابع وذرائع ہیں ۔ اصل مقصود اصلاح قلب ہے اور اس مقصود کا بھی ایک مقصود ہے یعنی رضائے حق جس کا ثمرہ ہے قرب باری تعالیٰ۔
پس حاصل یہ ہوا کہ دین کی ترتیب اس طرح ہوئی کہ اول تو عقائد کو صحیح کرے، پھر اعمال جوارح عبادات ومعاملات ومعاشرت کو درست کرے، پھر اصلاح قلب کا اہتمام کرے جس کا طریقہ کسی شیخ کامل سے پوچھے اور اس کے کہنے کے موافق ذکرو شغل میں لگے۔ اس سے اعمال قلب کی اصلاح آسانی سے ہوگی، کیونکہ ذکرو شغل سے حق تعالیٰ کے ساتھ تعلق بڑھ جاتا ہے، تو قلب میں اخلاق حمیدہ کی قابلیت جلد پیدا ہوجاتی ہے اسی لئے ذکر کے ساتھ اخلاق کی طرف بھی توجہ رکھنا چاہئے ( کیونکہ اصل چیز یہی ہے جس کی تحصیل ضروری اور فرض ہے، رہا ذکر و شغل وہ تو امر مستحب ہے جو اس مقصود کا ذریعہ ہے ) یہ ہے امر مہم اور یہ ہے اصلی درس مگر بعض لوگ صرف ذکرو اشغال پر اکتفا کرتے ہیں اخلاق کی درستی کا اہتمام نہیں کرتے یہ حقیقت سے ناواقفی کی دلیل ہے
اخلاق باطنہ کی درستگی کا طریقہ
اور اخلاق باطنہ کی درستی اس طرح ہوتی ہے کہ شیخ کے سامنے اپنے امراض قلبیہ(دل کی بیماریاں ) بیان کئے جائیں کہ ہمارے اندر فلاں فلاں امراض ہیں ، ریا یا