جس کو مشائخ وبزگان دین سے مناسبت وموافقت نہ ہو وہ کیا کرے
فرمایا اگرکسی کی ایسی طبیعت ہو کہ کسی سے بھی مناسبت نہ ہو وہ طریق سے کیسے مستفید ہوسکتا ہے یامحروم ہی رہے؟
اس کا جواب عام اہل طریق کے نزدیک تو نفی میں ہے مگر میں نے قواعد سے اس کے لئے بھی ایک طریق تجویز کیا ہے وہ یہ کہ ایسے شخص کے لئے بہتر ہے کہ کسی شخص سے تعلق نہ کرے کیونکہ کسی شیخ سے تعلق کرنا وصول الی اللہ اور قربِ حق کی شرط نقلی یا عقلی نہیں صرف شرط عادی ہے، اصل شرط تو شریعت پر عمل کرنا ہے شریعت ہی پر عمل کرنے اور تسہیل (آسانی) وتکمیل اور تعدیل (حد پر قائم رہنے )کے لئے شیخ سے تعلق کیا جاتا ہے خود تعلق مقصود بالذات نہیں ۔
یہ شخص اپنے طور سے شریعت پر عمل کرتا رہے البتہ عادۃ ً ایسے شخص سے کچھ غلطیاں یا کہیں کہیں اس کو تشویش ضرورہوگی جو شیخ سے حل ہوجاتی ہے اس میں یہ کرے کہ جہاں تک اپنی سمجھ کام دے اصلاح کی کوشش کرے اور جہاں کوشش کام نہ دے دعا کرے کہ اے اللہ حقیقت تک رہبری فرمائیے اور لغزشوں کو معاف فرمائیے پھر بھی اگر لغزشیں ہوجائیں گی تو عنداللہ مواخذہ نہ ہوگا کیونکہ یہ اپنی طرف سے کوشش کر چکا ۔۱؎
ایسے شخص کے لئے بغیر شیخ کے مشورہ کے صرف کتابوں پر عمل کرنے کا مشورہ اس کو دیا جائے گا یعنی اس کے لئے جو کسی شیخ سے مناسبت نہ رکھتاہو اور کسی بزرگ سے اس کو موافقت نہ ہوتی ہو ایسے شخص کے لئے اسلم طریقہ یہ ہے کہ وہ کسی سے رجوع نہ کرے۔بس کتاب وسنت پر اپنے طور سے عمل کرتا رہے اور اللہ تعالیٰ سے دعاکرتارہے کہ غلطی سے محفوظ رکھیں ، اس کے لئے یہی بہتر ہے کہ کسی کو اپنا شیخ نہ بنائے ۔۲؎
------------------------------
۱؎ الافاضات الیومیہ ص۴۷ج۱۰ ۲؎ الافاضات الیومیہ ص۱۹۳ج۹