(۱۰) دسویں اس کے جو مریدین ہیں ان میں اکثر کا یہ حال ہو کہ شریعت کے پابند ہوں اور ان میں دنیا کی طمع (لالچ) نہ ہو۔
(۱۱) گیارہویں عام لوگوں کے مقابلہ میں خاص لوگ یعنی جو دین دار اور سمجھ دار ہیں وہ اس کے زیادہ معتقد ہوں ،اور اس کی طرف مائل ہوں ۔
(۱۲) بارہویں یہ کہ اس کی طرف صلحاء اور دین کے سمجھنے والے لوگ زیادہ متوجہ ہوں ، اس کے زمانہ میں جو عالم اور درویش منصف مزاج ہوں وہ اسکو اچھا سمجھتے ہوں ۔ اور یہ کمال کی بڑی علامت ہے۔
جس شخص میں یہ علامات ہوں پھر یہ نہ دیکھے کہ اس سے کوئی کرامت بھی صادر ہوتی ہے یا نہیں ،یا اس کو کشف بھی ہوتا ہے یا نہیں ۔ یا یہ جو دعا کرتا ہے وہ قبول ہوجاتی ہے یا نہیں ۔ یا یہ صاحب تصرف ہے یا نہیں ۔ کیونکہ یہ امور لوازم مشیخت۱؎ یا ولایت ہی سے نہیں ۔ اسی طرح یہ نہ دیکھے کہ اس کی توجہ سے لوگ مرغ بسمل کی طرح تڑپنے لگتے ہیں یا نہیں ۔ کیونکہ یہ بھی لوازم۲؎بزرگی سے نہیں ۔ اصل میں یہ ایک نفسانی تصرف ہے جو مشق سے بڑھ جاتا ہے ۔ غیر متقی بلکہ غیر مسلم بھی کرسکتا ہے ۔ اور اس سے چنداں ۳؎ نفع بھی نہیں ۔ کیونکہ اس کے اثر کو بقاء نہیں ہوتا۔ صرف مرید غبی۴؎ کے لئے جو ذکر سے اصلا متاثر نہ ہوتا ہو ، چند روز تک شیخ کے اس عمل کرنے سے اس میں ایک گونہ تاثر وانفعال۵؎ قبول آثار ذکر کا پیدا ہوجاتا ہے ۔یہ نہیں کہ خوامخواہ لوٹ پوٹ ہی ہوجائے ۔۶؎
اگرشیخ کامل نہ ملے
اگرکسی کو شیخ کامل نہ ملے تو وہ یہ تدبیر کرے کہ مشائخ کے ملفوظات وحالات کا مطالعہ کرے اور کتابوں سے فنائے نفس (نفس کو مغلوب کرنے )کا طریقہ معلوم کرکے عمل کرے مگر شیخ
------------------------------
۱؎ شیخ اور بزرگی کے لئے لازم نہیں ۲؎ ضروری نہیں ۳؎ کچھ ۴؎ بدفہم کندذہن کم عقل۵ ؎ دوسرے کا اثر قبول کرنا ۶؎ تربیۃ السالک ۔ص ۷۲ قصدالسبیل ص۶ ،وعظ طریق النجاۃ ملحقہ دعوات عبدیت ص۵۹ج۱۲