باب ۳ کسی بزرگ سے بیعت ہونے کا شرعی وفقہی حکم
بیعت کی ایک حقیقت ہے ایک صور ت حقیقت اس کی ایک عقد ہے مرشدو مسترشد (پیر ومرید )کے درمیان، مرشد کی طرف سے تعلیم کا اور مسترشد کی طرف سے اتباع کا۔
اور چونکہ اس کے فرض یاواجب یاسنت موکدہ ہونے کی کوئی دلیل نہیں اور حضرۃ نبویہ سے دین کی حیثیت سے منقول ہے لہٰذا یہ بیعت مستحب ہوگی۔
اورجب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس پر مداومت ثابت نہیں ہزاروں مومن اس خاص طریقہ پر اس زمانہ میں حضور سے بیعت نہیں ہوئے اس لئے اس کو سنت موکدہ بھی نہ کہیں گے یہ سب تفصیل اس کی حقیقت میں ہے ۔
اور ایک اس کی صورت ہے یعنی معاہدہ کے وقت ہاتھ پر ہاتھ رکھنا یا کپڑا وغیرہ ہاتھ میں دیدینا تو یہ عمل مباح ہے لیکن مامور بہ کے کسی درجہ میں نہیں حتی کہ اس کے استحباب کا بھی حکم نہیں کیا جاسکتا کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جو منقول ہے وہ بطور عبادت اور دین کے نہیں بلکہ بطور عادت کے ہے کیونکہ عرب میں معاہدہ کے وقت یہ رسم تھی۔ چنانچہ اسی عادت کی بنا ء پر اس کوصفقہ بھی کہا جاتا ہے ۔
خلاصہ یہ کہ یہ بیعت معتادہ صلحاء حقیقت کے اعتبار سے مستحب سے زیادہ نہیں اور اس کی خاص ہیئت مباح سے زیادہ نہیں ۔ لہٰذا اس کا درجہ علماً یاعملاً بڑھا نا مثلاً اس کو شرط نجات قرار دینا یا تارک پر طعن کرنا یہ سب غلوفی الدین اور اعتداء حدود ہے ۔ اگرکوئی شخص عمر بھر بھی بطریق متعارف کسی سے بیعت نہ ہو اور خود علم دین حاصل کرکے یا علماء سے تحقیق کرکرکے اخلاص کے ساتھ احکام پر عمل کرتا رہے وہ ناجی اور مقبول اور مقرب ہے ۔ البتہ تجربہ سے یہ کلیاً یا اکثر یاً مشاہدہ ہوگیا ہے کہ عمل اور اصلاح کاجو درجہ مطلوب